Breaking News
Home / اخبار / اسرائیل کی جغرافیائی توسیع کے منصوبے کی ناکامی میں شہید سلیمانی کا کردار

اسرائیل کی جغرافیائی توسیع کے منصوبے کی ناکامی میں شہید سلیمانی کا کردار

مقبوضہ جغرافیے کی توسیع صیہونی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انقلاب کی كامیابی کے بعد صیہونی حکومت صرف ناجائز بستیاں تعمیر کرکے فلسطین کے زیادہ حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی لیكن دوسرے مسلم ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

  مقبوضہ جغرافیے کی توسیع صیہونی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انقلاب کی كامیابی کے بعد صیہونی حکومت صرف ناجائز بستیاں تعمیر کرکے فلسطین کے زیادہ حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی لیكن دوسرے مسلم ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اگرچہ اس ناکامی کی مختلف وجوہات تھیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اہم وجہ جنرل قاسم سلیمانی کی غاصب صیہونی حکومت کے خلاف محور مقاومت کی کمان تھی، مضمون ہذا میں شہید کے اس اہم کردار کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔

مزاحمت کی ڈیٹرنس پاور بڑھانے میں اہم کرداد

سپاہ پاسداران انقلاب کی  قدس فورس کے کمانڈر کے طور پر اپنی تقرری کے آغاز میں شہید سلیمانی کی سب سے اہم ترجیح  مزاحمتی محور کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کی تشکیل تھی۔ اس اہم اقدام نے صیہونی حکومت کے خلاف اہم فتوحات کی بنیاد فراہم کی۔ صیہونی حکومت اب تک متعدد بار مقبوضہ جغرافیے سے عقب نشینی کر چکی ہے۔ صحرائے سینا، جنوبی لبنان اور غزہ وہ تین مقامات ہیں جہاں سے صیہونی حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ صحرائے سینا سے انخلاء مصر کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے کیا گیا تھا لیکن جنوبی لبنان اور غزہ کی پٹی سے انخلاء معاہدے کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ صیہونی حکومت کی فوجی شکستوں کے نتیجے میں ہوا تھا۔

سنہ 2000 میں جب صیہونی کمانڈروں نے اس حکومت کے حکام کو میدانی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ جنوبی لبنان میں جنگ چھڑ گئی ہے اور اس علاقے میں حزب اللہ  کے خلاف فتح کا کوئی واضح امکان نظر نہیں آرہا ہے، لہذا وہاں سے عقب نشینی کا حکم دیا گیا تھا۔ صہیونی فوج نے 1978 میں جنوبی لبنان پر قبضہ کیا اور 1982 میں بیروت میں داخل ہوئی لیکن بعد میں اس علاقے سے بری طرح شکست کھا کر پسپا ہو گئی اور 2000 تک جنوبی لبنان میں موجود رہی۔ جنوبی لبنان کو آزاد کرانے کے لیے آپریشن اسی سال 21 مئی کو الغندوریہ کے علاقے سے القنطرہ کی طرف شروع ہوا اور اس میں جنوب کے دیگر علاقے بھی شامل تھے۔ یہ سلسلہ 25 مئی تک جاری رہا اور آخری صہیونی فوجی سلیم الحص کے علاقے کو چھوڑنے کے ساتھ ہی اسی دن لبنان کے وزیراعظم نے جنوبی لبنان کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔

جنوبی لبنان سے صیہونیوں کے انخلاء کے دو دن بعد صیہونی حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے روزنامہ معاریو سے گفتگو میں کہا: ہم نے لبنان میں ایک انتہائی مشکل اور المناک تجربے میں 1580 افراد گنوائے اور 6485 زخمی دئے  ۔ 22 سالہ قبضے کے دوران کے یہ اعداد و شمار جون 1967 کی جنگ کے جانی نقصان سے کہیں زیادہ ہیں کہ جس کے دوران تین عرب ممالک کی زمینوں پر ہم نے قبضہ کیا تھا۔ اب اگر ہم صحیح فیصلہ کریں تو سچ یہ ہے کہ ہم نے لبنان خود سے نہیں چھوڑا بلکہ ہم  وہاں سے بھاگے ہیں۔ ” یعنی ہم بغیر کسی جیت کے یکطرفہ طور پر(رسوا ہو کر) باہر بھاگ کھڑے ہوئے ۔

لبنانی مزاحمت کو یہ عظیم فتح قدس فورس کے کمانڈر کے طور پر جنرل سلیمانی کی تقرری کے صرف دو سال بعد نصیب ہوئی ہے۔ لبنانی تحریک حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن نبیل قاووق نے کہا کہ شہید سلیمانی نے 2000 میں جنوبی لبنان کی آزادی سے قبل قدس فورس کی کمان سنبھالی تھی اور وہ اس تاریخی کامیابی میں ایک بنیادی شراکت دار تھے۔

شیخ قاووق نے کہا کہ عرب خطے (جنوبی لبنان) کی آزادی کے بعد مزاحمت نے کسی بھی فریق پر احسان جتلائے بغیر خطے کو شکستوں کے دور سے فتوحات کے دور میں منتقل کیا۔ یہ عظیم فتح قوم کا سرمایہ امید بن گئی اور مساوات اور بیداری میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دی۔

غزہ ایک اور اہم نقطہ ہے جسے صیہونی حکومت کو 38 سال کے ناجائز قبضے کے بعد 2005 میں چھوڑنا پڑا۔ دوسرا انتفاضہ 2000 میں شروع ہوا اور 2005 میں ختم ہوا۔ فلسطین کے مختلف علاقوں میں فلسطینی انتفاضہ کا تسلسل اور اس میں اضافہ، غزہ کی پٹی سے صیہونی حکومت کا انخلاء اور غزہ کی آزادی شہید سلیمانی کے دور کی اہم ترین تبدیلیاں ہیں۔

متعدد جنگوں میں صیہونی حکومت کو مسلسل شکست کا سامنا

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے مرحوم کمانڈر کا ایک اور اہم اقدام صیہونی حکومت اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان جنگ میں براہ راست کردار ادا کرنا تھا۔ جنوبی لبنان کی آزادی، دوسرے فلسطینی انتفاضہ، 2006 میں 33 روزہ جنگ، 2008 میں 22 روزہ جنگ، 2012 میں 8 روزہ جنگ، 2014 میں 51 روزہ جنگ، اور شام اور عراق میں تکفیری دہشت گردوں اور ان کے حامیوں  کے خلاف 2011 سے لے کر 2020 تک کی جنگ میں شہادت تک اہم ترین معرکے  تھے جن میں جنرل قاسم سلیمانی نے میدان میں آپریشنل طور پر مرکزی کردار ادا کیا۔

پہلی 6 جنگوں میں صیہونی حکومت اس جنگ کا براہ راست فریق اور ان تمام جنگوں میں پہل کرنے والی تھی۔ اگرچہ صیہونی حکومت نے ان جنگوں میں (2006 میں) فلسطینیوں اور لبنان کو بہت زیادہ انسانی جانی اور مادی نقصان پہنچایا، لیکن یہ حکومت ان جنگوں میں سے کسی میں بھی اپنے فوجی مقاصد حاصل نہیں کر سکی۔ مثال کے طور پر، 2006 کی جنگ لبنان کی حزب اللہ کو تباہ کرنے کے مقصد سے شروع ہوئی تھی، لیکن نہ صرف حزب اللہ ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس جنگ کے بعد یہ مغربی ایشیائی خطے کے سیاسی-سیکیورٹی نظام کے سب سے اہم اور بااثر کھلاڑیوں میں سے ایک بن گئی۔

لبنان کے معروف تجزیہ کار ناصر قندیل 33 روزہ جنگ میں جنرل سلیمانی کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں: ” شہید قاسم سلیمانی کو لبنان میں جنگ کی فرنٹ لائن پر ہونا پسند تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وہ "بیروت” شہر کے مرکزی آپریشن روم میں  اپنے دیرینہ دوست اور جنگوں کے ساتھی شہید کمانڈر ” عماد مغنیہ” اور لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے ساتھ رہے۔ 33 روزہ جنگ کے دوران شہید سلیمانی مسلسل میدان جنگ اور مرکزی آپریشن روم کے درمیان آتے جاتے رہے۔ اس دوران، انہوں نے لبنان کے دلاوران مزاحمت کو مطلوبہ مدد فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔” بلاشبہ 33 روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی جیت عالم اسلام کے جغرافیہ پر اس رجیم کے تسلط کا باعث بن سکتی تھی لیکن اس ذلت آمیز شکست نے اسلامی ممالک کے جغرافیہ پر اس غاصب رجیم کے قبضے کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔

شام میں 2011 سے شروع ہونے والی جنگ اور 2014 سے عراق میں جنگ صہیونیوں نے مسلط نہیں کی تھی بلکہ شام اور عراق کی حکومتوں کی شکست کا مطلب ان جنگوں میں صیہونی حکومت کی جیت تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں ان دونوں ممالک میں مزاحمت دشمن حکومتیں وجود میں آسکتی تھیں۔

اس حوالے سے دہشت گرد گروہوں کو امریکہ کی طرف سے کھلی حمایت اور دہشت گردوں کی اچھے اور برے میں تقسیم کا تجزیہ  اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا شہید سلیمانی نے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ مزاحمت کے دشمنوں نے 2011 کے بعد سے، اسے نشانہ بنانے کے لیے شام اور عراق سمیت مزاحمت کے قریبی ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کا طریقہ اختیار کیا۔ جب کہ دشمنوں کو توقع تھی کہ شام کی حکومت جائے گی یا داعش عراق میں اسلامی خلافت قائم کرلے گی، لیکن ایک دہائی کی جنگ کے بعد بھی شامی حکومت قائم رہی اور عراق میں داعش شکست کھا گئی۔ ناصر قندیل یاد دلاتے ہیں کہ بلا شبہ اگر قاسم سلیمانی کا اس میدان جنگ میں اسٹریٹجک کردار نہ ہوتا تو شام، عراق اور خطے میں داعش کی دہشت گردی پر حتمی فتح کا حصول ممکن نہ ہوتا۔

نتیجہ

قبضہ گیری غاصب صیہونی حکومت کی سب سے اہم خصوصیت ہے کیونکہ اس نے اسلامی ممالک کی سرزمینوں پر قبضہ کر کے حکومت قائم کی اور اس کی خواہش تھی کہ وہ فلسطین کے علاوہ عالم اسلام کے مزید جغرافیے پربھی قبضہ کرے لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ کیونکہ صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع کو روکنے میں شہید سلیمانی کا کردار نمایاں تھا ۔ قدس فورس کے اس شہید کمانڈر نے مغربی ایشیائی خطے میں فوجی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہوئے مزاحمتی محور کی ڈیٹرنس پاور کو بہتر بنا کر اسرائیلی رجیم کے ناقابل شکست ہونے کے افسانے کو بحر مردار میں بہا دیا اور صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع کے آگے بند باندھا۔ چنانچہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے