Breaking News
Home / اخبار / کیا ن لیگ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں؟

کیا ن لیگ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں؟

پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر  نواز شریف کے اجلاس سے اٹھ کر چلے جانے سے متعلق سوال وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل گول کرگئے۔خیال رہےکہ گزشتہ روز حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمت میں 6 روپے 72 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا تھا۔ٹوئٹر پر ایک صارف نے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز سے مخاطب ہو کر درخواست کی تھی کہ ‘ آپ میاں نواز شریف صاحب کو بولیں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لیں’۔

جس کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘میاں صاحب نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں مزید ایک پیسے کا بوجھ عوام پر نہیں ڈال سکتا اور اگر حکومت کی کوئی مجبوری ہے تو میں اس فیصلے میں شامل نہیں ہوں اور میٹنگ چھوڑ کر چلےگئے’۔ اس سوال پرکہ کیا ن لیگ کی قیادت گڈ کوپ بیڈ کوپ کھیل رہی ہے ؟ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ  اس معاملےکو کسی کی ذات سے نہ جوڑیں، قیمتیں اوگرا کی تجویز پر وزیر اعظم شہباز شریف کے دستخط کے بعد ہی بڑھیں ۔

 اتحادی حکومت کا اہم حصہ پیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی ایک بیان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اتحادی حکومت کو اس قسم کے فیصلے حکومتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کرنے چاہئیں۔ گو کہ انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد میں شامل ہے اور اس کا حصہ رہے گی لیکن انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو غیر ضروری قرار دیا۔

اس اضافہ پر رد عمل کی ایک وجہ یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں مستحکم ہوئی ہیں اور بظاہر پاکستان میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن سوموار کو اوگرا کے مشورہ پر حکومت نے ہمہ قسم پیٹرولیم مصنوعات پر پونے سات روپے لیٹر کے لگ بھگ اضافہ کی منظوری دی تھی۔ پاکستان میں ہر دو ہفتے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی کا فیصلہ ہوتا ہے۔

موجودہ حکومت کے آغاز میں پیٹرول کی قیمتوں میں ستر روپے لیٹر اضافہ ہوا تھا تاہم حالیہ ہفتوں میں قدرے کمی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں کمی پاکستانی صارفین کو منتقل کی جائے گی اور حکومت مزید محاصل عائد نہیں کرے گی۔ یوں تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی منڈیوں کے مطابق کرنا آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی نتیجہ میں ضروری تھا۔ سیاسی تصادم کے عروج کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بلکہ اسے بجٹ تک منجمد کرنے کا اعلان بھی کیا حالانکہ اس وقت عالمی منڈیوں میں یوکرائن جنگ کی وجہ سے قیمتیں بڑھ رہی تھیں۔

اس فیصلہ کی وجہ سے ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ جاری امدادی پروگرام معطل ہو گیا تو دوسری طرف عدم اعتماد کے بعد برسر اقتدار آنے والی شہباز شریف کی حکومت کو پریشان کن مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی لئے موجودہ حکومت پہلے ایک ماہ کے دوران کوئی بڑا معاشی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تھی کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا اور اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی۔ تاہم لندن اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) بالآخر یہ سیاسی جؤا کھیلنے پر تیار ہو گئی البتہ یہ طے کیا گیا کہ موجودہ حکومت بہر حال فوری انتخابات نہیں کروائے گی تاکہ آئندہ سال کے بجٹ میں موافق حالات پیدا کر کے عوام کو سہولت دی جائے اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ اتحادی جماعتیں بھی بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگنے کے لئے جا سکیں۔

یہ ممکن ہے کہ نواز شریف کو بھی یہ اندیشہ ہو کہ موجودہ حکومت کے پاس پورا ایک سال نہیں ہے جس کے دوران وہ کوئی ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کرسکے کہ عوام کی توجہ حاصل کر لے یا تحریک انصاف کے طوفان کو روک سکے۔ اس لئے پیش بندی کے طور وہ ابھی سے اپنی ہی حکومت کے خلاف ’محاذ‘ بنا کر عوام تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ شہباز شریف خواہ مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت میں ہی وزیر اعظم بنے ہوں لیکن نواز شریف ان کی حکومت کے فیصلوں سے پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ گزشتہ روز دیے گئے رد عمل میں یہی تاثر دیا گیا ہے کہ نواز شریف حکومت کی مزید ’عوام دشمن پالیسیوں‘ کی حمایت نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ عوام کو ریلیف دلانا چاہتے ہیں۔ ان کے حامی اس ردعمل کو نواز شریف کے امیج بلڈنگ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

اس ماہ کے آخر یا اگلے ماہ کے شروع میں وزیر اعظم شہباز شریف کو نئے آرمی چیف کے بارے میں اہم فیصلہ بھی کرنا ہے۔ عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ اس تقرری سے پاکستانی سیاست کے رخ کا تعین ہو گا۔ یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ شہباز شریف اگرچہ ہمیشہ بھائی کے ساتھ وفادار رہے ہیں لیکن اسٹبلشمنٹ اور فوج سے تعلق کے بارے میں ان کی حکمت عملی نواز شریف کے برعکس رہی ہے۔ اب جبکہ وہ خود بطور وزیر اعظم آرمی چیف کا تقرر کرنے کے مجاز ہیں، کیا وہ بھائی کے مشورہ و خواہش کو پورا کریں گے یا خود اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایسا فیصلہ کریں گے جو ان کے خیال میں ان کے سیاسی مستقبل کے لئے سود مند ہو سکے۔ نواز شریف اس صورت حال سے بے خبر نہیں ہوسکتے۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے