Breaking News
Home / اخبار / کیا عمران خان ون مین شو ہیں؟

کیا عمران خان ون مین شو ہیں؟

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ کل ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج اور ووٹوں کو دیکھا جائے تو مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں انہوں نے 37.24 فیصد ووٹ لیے تھے اور کل اس میں 13 فیصد اضافہ ہو کر ان کے ووٹ تقریباً 50 فیصد ہو گئے ہیں۔ پی ڈی ایم کی چار سیٹیوں پر ووٹ کے تناسب میں کمی آئی ہے جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹ کسی بھی حلقے میں کم نہیں ہوا۔ اس وقت عمران خان صاحب مقبولیت کے ایک مقام پر موجود ہیں اور لوگ انہیں اس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ضمنی انتخاب کے حوالے سے ٹرن آؤٹ کم ضرور رہا مگر ہمارے جیسے ملک میں میں اسے مایوس کن نہیں کہوں گا۔

 احمد بلال محبوب نے کہا کہ لانگ مارچ کی دھمکی لانگ مارچ کرنے کی نسبت زیادہ فائدے مند ہے۔ نظام الٹا کر عمران خان کو فائدہ نہیں ہوگا، کوئی تیسرا آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے (ن) لیگ کو نقصان ہو جائے لیکن ضروری نہیں عمران خان کو فائدہ ہو۔ اس وقت پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا عمل جاری ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ سے مکمل طور پر اپنی بنائی ہوئی جماعت کا خاتمہ نہیں ہو پاتا۔

اب بھی یہ ممکن ہے کہ عمران خان کو ختم کرنے کی کوشش ناکام ہو جائے اور وہ مناسب شرائط پہ پھر سے واپس آ جائیں۔ ماضی میں عمران خان کو سپورٹ دلوائی گئی تھی اور اب جو سپورٹ انہیں مل رہی ہے وہ جینوئن ہے۔ عوام میں ان کی جڑیں بن گئی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پہلے انہیں سپورٹ دلوائی گئی تھی اور پھر لوگ انہیں چاہنے لگ گئے تھے۔

بہر حال اس تاریخ ساز کامیابی کے باوجود ملک کی سیاسی صورت حال میں کسی قابل ذکر تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اول تو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے جسے وہ بظاہر اسمبلی سے استعفے دینا کہتی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے جن نشستوں کو خالی قرار دیا، ان پر ضمنی انتخاب منعقد ہوا تھا۔ عمران خان نے آٹھ حلقوں میں سے سات میں خود امید وار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

صرف ملتان کی نشست پر شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کو موسی گیلانی کا مقابلہ کرنے کا موقع دیا گیا تھا لیکن وہ یہ نشست نہیں جیت سکیں۔ عمران خان کراچی کی ایک نشست کے علاوہ تمام 6 نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ یوں انہوں نے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں دو ریکارڈ قائم کیے۔ ایک تو بیک وقت سات نشستوں پر امید وار ہونا اور دوسرے ان میں سے چھے پر کامیابی حاصل کرنا شامل ہے۔

عمران خان پہلے سے ہی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے ابھی تک ان کا استعفی منظور نہیں کیا۔ لہذا اس کامیابی کے بعد عمران خان قومی اسمبلی کے 7 حلقوں سے ’عوام‘ کے نمائندے ہیں۔ ان میں سے انہیں 6 نشستیں چھوڑنا پڑیں گی اور وہاں ایک بار پھر ضمنی انتخاب ہو گا۔ عمران خان کی موجودہ ’بھگاؤ اور ڈراؤ‘ کی سیاسی حکمت عملی میں قیاس جا سکتا ہے کہ اگلے برس عام انتخابات منعقد ہونے تک یہی کھیل چلتا رہے گا۔ عمران خان اس تماشا کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومتی اتحاد پر عائد کرتے ہیں جسے وہ ’امپورٹڈ حکومت‘ قرار دیتے ہیں۔

گو کہ آڈیو لیکس کے نتیجہ میں عمران خان کے سازشی نظریہ سے ہوا نکل چکی ہے لیکن گزشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ ان کے حامی عمران خان کے جھوٹ کا پول کھلنے کے باوجود حمایت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنے کسی سیاسی عمل کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک افسوسناک فیصلہ تو قومی اسمبلی سے استعفے دینے اور پھر اسی اسمبلی کے لئے انتخاب لڑ کر قومی وسائل ضائع کرنے کے بارے میں ہے۔ ان کے حامی چونکہ قومی خزانے کے ضیاع پر ان سے سوال نہیں کرتے، اس لئے انہیں اپنے غلط فیصلوں کی کوئی پرواہ بھی نہیں ہے۔ البتہ اس کی قیمت عمران خان کی بجائے قومی خزانہ ادا کرے گا۔

ضمنی انتخاب میں عمران خان کی فقید المثال کامیابی کے حوالے سے یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف ملک کی سب سے مقبول اور سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے سات پر عمران خان خود امید وار تھے۔ اگرچہ وہ ان میں سے خود بھی ایک نشست پر ہار گئے لیکن امکان ہے کہ اگر وہ ملتان کے حلقے سے بھی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتے تو شاید تحریک انصاف یہ نشست بھی جیت جاتی۔ البتہ انہیں اپنی پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی اس خواہش کا احترام کرنا پڑا کہ یہ ان کی خاندانی نشست ہے جو اس سے پہلے ان کے بیٹے کے پاس تھی لہذا اسے ان کے خاندان میں ہی رہنے دیا جائے۔

غالباً یہی غلطی ملتان میں پی ٹی آئی کی ناکامی کا سبب بنی ہے۔ البتہ اس سے یہ بھیانک حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ تحریک انصاف سنگل مین شو ہے، کوئی منظم سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ عمران خان کو پارٹی کی مقبولیت اور موجودہ حالات میں سیاسی دباؤ برقرار رکھنے کے لئے خود ہی تمام حلقوں پر انتخاب لڑنا پڑا۔ اگر وہ ملتان کی طرح باقی حلقوں میں بھی پارٹی کے دوسرے امیدواروں کو انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیتے تو شاید چند مزید حلقوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہوتا۔ اس صورت حال سے عمران خان کی سیاسی مجبوری اور ان کی پارٹی کی کمزوری کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ عام انتخابات میں سیاسی مخالفین ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے