Breaking News
Home / اخبار / طالبان فتح کےبعدکاافغانستان:جمہوری راستےکی نقشہ سازی

طالبان فتح کےبعدکاافغانستان:جمہوری راستےکی نقشہ سازی

افغان جمہوریہ کےزوال  نے، افغانستان میں جمہوریت کے خاتمے کا  اعلان کیا۔یہ ایک بدقسمتی ہے، اگر چہ،جمہوریت کی واحد شکل، جس سے افغان واقف تھے، ایک ایسا نظام تھاجو دھوکہ بازی پر مبنی انتخابات،نا اہل  افسر شاہی ور بےلگام بد عنوانی پر مشتمل تھا۔افغان جمہوریہ نے سیکورٹی خدشات کو ، جس نےانہیں دیہاتی علاقو ں سے دور رکھا ،ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا  فرضی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے  خاطر اور بجائے اس کے کہ وہ شہری علاقوں سے دیہاتوں کی جانب ترقی کےثمرات منتقل کرنے کی کوششوں کو مزید بہتر بناتے انہوں نے اسی بہانے کو خورد برد کے نئے راستے تلاش  کرنے کے لیے استعما ل کیا ۔

افغان جمہوریہ نے طالبان ، جو کہ دیہی علاقوں میں غالب تھے،سے معاملات حل کرنے کے لیے مذاکرات سے انکار  کیا اور یہ دیگر خارجی عوامل کے علاوہ ایک ایساعامل تھا جس کی وجہ سے ہم نے چھ ماہ پہلے ایک الگ  قسم کے زوال کا مشاہدہ کیا۔عسکری فتح اور  اس کے نتیجےکے طور پر طالبان کی  سیاسی اجارہ داری نے انہیں جرات دی کہ وہ باغی عناصر اور سول حقوق کی تحریکوں  کو،  اغواکے زریعے اور ٹیپ شدہ اقرار ہائے جرم کے زریعے دبا کر رکھیں ۔ہم میں سے وہ ،جو موجودہ  صورت حال  سے غیر مطمئن ہیں، بجائے طویل المیعاد حل کے  بارے غور کرنے کے،معاملات کےوقتی حل کی تلاش میں  لگے رہتے ہیں۔

لیکن افغانستان کو ایک جمہوری نظام کی ضرورت ہے ایک  ایسا  جمہوری نظام جو ان کی مقامی ضروریات کے مطابق ہو ۔ اور ہمیں اس تک  اپنے راستے  کی نقشہ سازی کرنی ہے۔ابتدائی قدم کے طور پر ،وہ افغانی جو اپنے ملک میں ایک شناخت پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں سول سوسائٹی کا چار ج لینا ہو گا۔ انہیں  بہتر بنائی گئی سیکورٹی صورتحال کو استعمال کرتے ہوئے ان منصوبوں کو لاگو کرنا ہو گاجو وسیع دیہاتی علاقوں کو معاشی اور سیاسی طور پر طاقتور بناتے ہوں۔

سول  سوسائٹی عمومی لحاظ سے اور  سول حقوق کی تحریکیں خصوصی طور پر ، منصفانہ جمہوریتوں کے  قیام کےلیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔وہ عوامی مخاطبے کے لیےبامعنی راستہ بناتی ہیں اور عوامی مسائل  کو حکومت تک پہنچانے کےلیے ایک پل کا  کردار ادا کرتی ہیں۔ اور وہ جمہوری پشت قدمی سے بچاتی ہیں۔یہ سبعوام کی جانب سے،  بامقصد عوامی  شراکت داری کیطرف لے جاتاہے۔یہ اس قانونی  فریم ورک کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے جوشہریوں کے حقوق کا محافظ ہوتاہے۔

بد قسمتی سے طالبان کی فتح سے پہلے ،افغانستان کی سول سوسائٹی ،غیر ملکی عطیات پر بہت زیادہ انحصار کررہی تھی، جو بجائے مقامی آبادی کے ،بین الاقوامی حصہ داروں پر زیادہ  توجہ مرکوز کرنےکا سبب بن گیا۔ سیکورٹی کی صورت حال نے اس  قطع تعلق  کو مزید بڑھاوا دیا۔ان عوامل نے طالبان کو موقع دیا کہ  وہ سول سوسائٹی پر پٹھو ہونے کا الزام لگا دیں جو کہ  غیرملکی ایجنڈے پر کا م کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ان ‘اعترافات ‘ میں دیکھا جا سکتاہے جو حال  ہی  میں اغوا  کی گئی ،عورتوں کے حقوق کےلیے جدوجہد کرنے والی خواتین سے حاصل کیے گئے۔

افغانستان میں  اس وقت  کوئی اپوزیشن نہیں رو گئی جو اہم معاملات پر طالبا ن پر دباؤ ڈال سکے۔ اگر چہ مخالفت، وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ یہ بہت  زیادو بکھری ہوئی اور غیر روایتی ہے۔سول  سوسائٹی کی تجدید نو کی خاطر ، افغانوں کو اس مخالفت کو  ایک واضح شکل دیتے ہوئے،اورسیاسی عمل کو وسیع کرنے کے لیے بہت بڑے قدم اٹھانا  ہونگے۔اسطرح ، طالبان مخالف قوتوں کو باقاعدہ گروپوںاور سماجی تحریکوں میں اکٹھا کیا جا سکے گا۔

ایسابیرون ملک اس وقت تک کیا جا سکتا ہےجب تک طالبان ان گروپوں کی افغانستان واپسی کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کرتے۔اور ایسا ہو سکتاہے کہ طالبان ان گروپس پر غیر ملکی ہونے کا ٹھپہ لگا دیں۔ بہتر یہ ہو گا کہ مختلف جگہ بکھرے ہو ئے افغانیوں کو منظم کیا جائےاور افغانستان لوٹنے کےلیے مناسب موقع کا انتظار کیا جائے۔ایسی  سماجی تحریکیں اپنی جگہ بنانےکےلیے لوگوں کو وہ سہولیات دی جائیں جو ریاست نہیں دے پا رہی۔اس طرح کی سرگرمیوں سے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور طالبان بھی انہیں تسلیم کریں گے۔ایک مرتبہ جب زیادہ سے زیادہ بھروسہ حاصل ہو جائےگا تو یہ گروپس طالبان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان  مزاکرات کار بن سکتےہیں۔

ایک سول ماحول جس میں سول سوسائٹی ، تعلیمی ماہرین اور منظم مخالفین گروپس شامل ہوں بالآخر طالبان کے ساتھ ایسےمعاہدات پر باہمی گفتگو کی طرف لے جائیں گےجو ملک میں قوانین اور عمومی معیار قائم کرنے میں مدد دیں گے۔ایسا کیوبا میں انقلاب کےبعد ایک طویل تبدیلی کے عمل میں مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔اگرچہ طاقت کاعدم توازن طالبان کےحق میں  ہوگا، لیکن ملک کے اندر مختلف دھڑوں کا کردار اہم کردار ادا  کر سکتا ہے۔ اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ بطور  مذاکرا ت کا ر انکے سرگرم ہونے کی ان  کی عملی قابلیت اس قدر موئثر ہو سکتی ہےکہ طالبان ان کے مطالبات کے لیے اپنے ہاں جگہ بنا سکیں۔یہاں بین الاقوامی برادری کا بھی کردار بنتا ہے۔ جیسا کہ میں کہیں اور بھی  یہ  دلیل  دے چکا ہوں ، طالبان کو  ایک طرف رکھ دینے یا ان کو خارج کردینے سے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ نہ ہی مکمل طور پر غیر ملکی  حل  لاگو کرنے سے کام بنے گا۔

یہ حقیقت کہ  افغانستان نے مسائل کے” غیرملکی حل” کے لیے، کئی دہائیوں تک بے شمار  کوششیں کی ہیں، اور اب جو اس کی موجودہ حالت ہو چکی ہے وہ خود اپنی ترجمان ہے۔ اب وقت ہے کہ مسائل کے حل کے لیے افغانوں کی خود اپنی فطری کوششوں میں، بین الاقوامی برادری  ،محض ایک تکمیلی عنصر کے طور پر کام کرے۔لہٰذا بین الاقوامی برادری سول ماحول کو مدد دینے میں ایک توازنی قوت کے طورپر-بالواسطہ اور باریک بینی سے- کام کرے،تاکہ، سول  شکل میں کام کرنے والے ،غیر ملکی ایجنڈہ لاگو کرنے والے ایجنٹ نظر نہ آئیں۔آخر کار، یہ افغانی ہی ہیں جنہوں نے بعد از تصادم ، موجودہ  کیفیت کو ایک زیادہ دیرپا حالت میں تبدیل کر دیاہے۔ افغانستان میں، نتیجتا” ،باہمی رضامندی سے طے ہونے والا سیاسی نظام ‘ مغربی طرز کی جمہوریت نہیں ہونا چاہیے ، لیکن ساتھ ہی یہ یک جماعتی آمریت بھی نہیں ہو سکتا ۔

اس قلب ماہیت کی کامیابی یا ناکامی کی زمہ داری کافی حد تک طالبان پر منحصر ہے۔اگر قابل افراد کے فرارکو روکناہے اور ایک ایسے تعلیم یافتہ افغانستان کی خواہش کو پورا کرنا مقصد ہو جوبامقصد طور پر افغانستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے تو یہ سب تقاضا کرتاہے ایسے دھڑےکا جو مخالفین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال اور اجارہ داری کی مزاحمت کرے۔کسی واحد انسان کی بصیرت کی روشنی میں سماج کی صورت گری ، افغانستان میں ناکام ہو چکی  ہے اور یہ دوبارہ بھی ناکامی سے دو چار ہوگی۔ ( یہاں اشارہ ، اشرف غنی اور  اس جیسے دیگر کرداروں کے کردار کی جانب ہے)۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے