Breaking News
Home / اخبار / سیلاب کی تباہ کاریاں اور سیاسی غلط کاریاں

سیلاب کی تباہ کاریاں اور سیاسی غلط کاریاں

 ملک کے کئی علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، بارشوں کے باعث منہ زور سیلابی ریلے آبادیوں کو ملیا میٹ کررہے ہیں، مکانات ، سڑکیں ، پل اور دیگر انفراسٹرکچر مسلسل تباہی سے دو چار ہو گئے۔حیدرآباد میں بارش نے تباہی مچادی جس سے کئی علاقے دریا کا منظر پیش کرنے لگے ہیں، مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا اور ہزاروں خاندان در بدر ہو چکے ہیں، کئی متاثرہ خاندانوں کو ابھی تک ٹینٹ اور راشن بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

ادھر سندھ میں بارشوں سے منچھر جھیل میں پانی کی سطح 19 فٹ تک پہنچ گئی، حکام نے جھیل پر ایمرجنسی نافذ کر کے پشتوں کی نگرانی کا عمل شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں سیلابی ریلے کی نذر ہو کر خاتون اور بچہ جاں بحق ہوگئے، 20 سے زائد آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، ضلع بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے ہیں، بجلی، انٹرنیٹ سروسز اور موبائل سگنل غائب ہیں، پاک فوج اور ریسکیو ٹیموں کا آپریشن جاری ہے۔

ملک بھر میں مسلسل بارشوں کے بعد سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 1030 سے تجاوز کرگئی ہے، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران سندھ میں 74، خیبر پختونخوا میں 31، پنجاب میں 1، بلوچستان میں 4، گلگت بلتستان 6 اور آزاد کشمیر میں بھی 1 شخص زندگی کی بازی ہار گیا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این ڈی ایم اے)کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق بارشوں کے بعد سیلاب سے جاں بحق ہونے والوں میں 32 بچے 56 مرد 9 خواتین شامل ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد 57 لاکھ 73 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

قدرتی آفت کی صورت حال میں سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر تمام سیاسی گروہوں اور لوگوں کو مل کر کام کرنے اور امدادی سرگرمیوں کو موثر بنانے کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے۔ لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں سیاسی بنیاد پر پائے جانے والے اختلاف کی وجہ سے تعاون و ہم آہنگی کی بجائے، سیاسی لیڈر عام لوگوں کے مسائل اور پریشانی کو ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

چند لیڈروں کے بیانات اور طرز عمل سے قطع نظر سوشل میڈیا پر سیاسی مقاصد سے چلائی جانے والی مہم جوئی سے متاثرین کی بحالی کے کا کام متاثر ہوتا ہے۔ جو لوگ اس مشکل میں ہم وطنوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی بے یقینی کا شکار ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کہیں ان کا عطیہ یا فراہم کردہ وسائل ’غلط ہاتھوں‘ میں نہ چلا جائے۔ بدقسمتی سے عام شہریوں کی مشکل کو سیاسی مقصد حاصل کرنے کا رویہ اس وقت ہر سطح پر نمایاں ہے۔

پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں مرکزی حکومت کے ساتھ کوئی تعاون کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں بلکہ دونوں صوبوں کی قیادت کسی نہ کسی طور سے عمران خان کی خوشنودی کے لئے مرکز کو ’ٹف ٹائم‘ دینے اور اس کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے مواصلات متاثر ہیں اور دور دراز علاقوں میں لوگوں کی حالت زار کے بارے میں جاننا یا ان کے لئے کسی قسم کی امداد کا سامان بہم پہنچانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔

ایسے موقع پر قومی یک جہتی میں واضح طور سے محسوس ہوتی دراڑیں نہ صرف بحالی کے کاموں میں مشکلات کا سبب بن رہی ہیں بلکہ عوام کی پریشانی اور بے یقینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت یہ ذمہ داری صرف وزیر اعظم شہباز شریف یا دیگر حکومتی اہلکاروں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ صوبائی اور مرکزی حکام کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قوم کو اس مشکل سے نکالنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے مختلف متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب زدگان کے لئے امدادی پیکجز کا اعلان بھی کیا۔ سیلاب سے تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کے لئے 5 لاکھ روپے دیئے جائیں گے اور جن گھروں کو جزوی نقصان پہنچا،ان کو 2 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ رقم دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت بھی سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے امداد دے گی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ سیلاب سے جو فصلیں تباہ یا مویشی ہلاک ہوئے‘ ان کا تخمینہ لگانے کے لئے کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں۔ وفاق کی سطح پر بنائی4کمیٹیاں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں سے مشاورت کے ساتھ سروے کریں گی۔

حکومت کو سیلاب زدگان کیلئے ریلیف کیمپ لگانے چاہئیں تاکہ جو لوگ اپنی مصروفیات کی وجہ سے سیلاب زدگان تک نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے فنڈز اور سامان ان کیمپوں میں پہنچا دیں اور وہاں سے پھر حکام کی نگرانی میں اکٹھا کیا گیا سامان سیلاب زدگان تک پہنچایا جا سکے‘ تاہم ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں شفافیت کو برقرار رکھا جائے تاکہ حقیتاً حق بہ حق دار رسید والا معاملہ ہو سکے۔ ایک لمحے کے لئے سوچیے کہ سیلاب زدگان کی جگہ آپ ہوں تو کیا ہو؟ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی مدد کی جانی چاہئے یا نہیں، مصیبت کسی بھی وقت کسی پر بھی آ سکتی ہے۔ آج اگر ہم دوسروں کی مدد کریں تو کل کو پروردگار کسی مسئلے میں ہماری بھی نصرت فرمائے گا۔

ضروری ہے کہ سیلابوں اوردوسری قدرتی آفات کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ اگر ایک بڑا ڈیم سیلابوں سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے تو اس بارے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ محکمہ موسمیات کو جدید بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ موسموں کے حوالے سے قبل از وقت ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کر سکے اور اگر شدید بارشوں کی پیش گوئی ہو تو جن علاقوں میں سیلاب آنے کا خطرہ ہو وہاں سے لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کو نکالنے کے لئے بروقت کام ہونا چاہئے ان کے ڈوب جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔

About خاکسار

Check Also

ایران اور قطر کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون اطمینان بخش ہے

ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے قطر کی سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ سے ملاقات کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے