Breaking News
Home / اخبار / سیلابی تباہ کاریوں میں ناقص منصوبہ بندی کا کردار

سیلابی تباہ کاریوں میں ناقص منصوبہ بندی کا کردار

 بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وقفے وقفے سے طوفانی بارشوں اور ندی نالوں میں طغیانی کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آچکے ہیں۔ صوبے بھر میں سیلابی ریلے میں بہے جانے اور گھر کی چھتیں گرنے کے باعث اب تک 57 لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ 50 سے زائد زخمی ہیں، حکومت بلوچستان نے ہلاک افراد کے اہل خانہ کو فی کس پانچ لاکھ روپے زرتلافی دینے کا اعلان کیا ہے۔

 پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے چارٹ کے مطابق بلوچستان میں یکم تا 9 جولائی زیادہ سے زیادہ بارش کا اوسط ریکارڈ 6.9 ملی میٹر ہے تاہم اس سال اسی مدت میں بلوچستان میں اوسطً 45.9 ملی میٹر بارش ہوئی جو کہ 39 ملی میٹر زیادہ ہے۔ اسی طرح سندھ میں یکم تا 9 جولائی میں زیادہ سے زیادہ بارش کا ریکارڈ اوسط 10.5 ملی میٹر ہے تاہم اس سال سندھ میں اسی مدت میں اوسطً 72.1 میٹر بارش ہوئی جو کہ 61.6 ملی میٹر زائد ہے۔

سندھ اور بلوچستان میں 30 سال کی اوسط سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں، شدید بارشوں کی وجہ سے چھوٹے بڑے شہروں میں پانی کھڑا ہے، ہمارے نالوں اور سیوریج کے نظام پر پہلے ہی بارشوں کے پانی کا دباؤ ہے، لوگوں سے گزارش ہے قربانی کسی مخصوص اور مختص شدہ جگہ پر کریں، گلی گلی میں قربانی کرنے سے آلودگی بڑھے گی اور پانے کے نالے بند ہو جائے ہیں۔

علاقے کے بزرگوں اور کاشت کاروں کے مطابق امسال اچانک اور غیر متوقع جو بارشیں ہوئیں اور تباہ کن سیلاب آئے، انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ فی الحقیقت، بارشوں اور سیلابوں کی شدت نے عوام کی جان و مال کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ پچھلے دس سالوں میں بننے والے نئے غیر معیاری ڈیموں نے پہنچایا۔ کثیر تعداد میں نئے تعمیر شدہ بندات یا تو مکمل طور پر ٹوٹ گئے ہیں اور یا ٹوٹنے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام، بازاروں، گھروں، فصلوں، سڑکوں، پلوں اور مال مویشی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

جس وقت یہ نئے بندات بن رہے تھے اس وقت علاقہ مکینوں، سماجی کارکنوں اور میڈیا سے وابستہ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ان ڈیموں کے محل وقوع، ڈیزائن، فنڈ اور اس میں استعمال ہونے والے ناقص مواد کے خلاف خوب آواز بلند کی مگر قدامت پرستوں، سیاسی مزاحمت کاروں اور شریک جرم متعلقہ افسروں نے ان کی ایک نہ سنی۔ نتیجتاً ایسے ڈیم بن گئے جو عوام کی جان و مال کے لیے عذاب کبیرہ بن گئے۔ صرف ایک ہفتے کی بارشوں اور سیلابوں نے سیاست زدہ ڈیموں کا پول کھول دیا اور پورا بلوچستان سیلاب میں بہنے لگا۔

طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ٹیوب ویل، کنویں، چشمے اور کاریزات مٹی سے بھر گئے ہیں۔ عوام کو اب دور دراز سے ٹریکٹروں اور ٹینکروں کے ذریعے پانی (فی ٹینکی 2500 تا 3000 ) لانا پڑتا ہے۔ عوام میں اس وقت نئے تعمیر شدہ ڈیموں کے ٹوٹنے پر نہایت غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ڈیموں کے ٹوٹنے سے عوام کی تکلیف میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ ڈیموں کے ٹوٹنے کی وجہ سے سریلا حبیب زئی، ملکیار شخالزئی، ڈب خانزئی، منزکی حمید آباد، کوزہ نیگاندہ، دلسورہ، خانوزئی، رودملازئی اور کلی غرشینان میں ایسا گھر نہیں جو سیلاب سے کلی یا جزوی طور پر متاثر نہ ہوا ہو۔ راقم الحروف یعنی میرے اپنے گھر کے چار کمرے کلی طور پر منہدم ہوچکے ہیں اور یہی صورت حال تقریباً ہر گھر کی ہے۔ لیکن آفرین ہو ان تہی دست عوام پر جنھوں نے اب تک اپنی مدد آپ کے تحت خود کو سنبھالا ہوا ہے۔

مون سونی بارشیں تقریباً پورے بلوچستان میں اپنے جوبن پر ہیں۔ بارشوں کے ساتھ ساتھ آسمانی بجلیاں اور زلزلے بھی تواتر سے شروع ہونے لگے ہیں۔ اس طرح کی تباہ کن بارشیں اور مہیب سیلابی ریلے دنیا میں رونما ہونے والی عالمی حدت اور موسمی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں۔ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے قدرتی آبی گزر گاہوں، تنگ وادیوں اور پہاڑوں کے دامن میں گھر بسانا شروع کیے ہیں، لیکن پانی اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ ناقص نکاس آب کا نظام بھی سیلابی صورت حال کو مزید مخدوش بناتا ہے۔

عوام کی غفلت ہو یا قدرت کی بے نیازی، سرکاری افسروں کی بدعنوانی ہو یا سیاسی کارکنوں کی ٹھیکے داروں سے ملی بھگت، اس کا حساب تو ہر قیمت پر ہو گا مگر سب سے پہلے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد کریں، ان کو خیمے اور ادویات فراہم کریں اور ان کے نقصانات کا صحیح جائزہ لے کر ان کی طویل المدتی بحالی پر توجہ دیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ موسم کے متعلق خود کو ہمہ وقت باخبر رکھیں۔ غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔

About خاکسار

Check Also

یورپی ممالک اسرائیل کی جنگی جارحیت کو روکنے کے لئے موئثر اقدامات کریں، ایران

ایرانی وزیر خارجہ کے سینئر مشیر برائے سیاسی امور نے کہا ہے کہ یورپی ممالک …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے