Breaking News
Home / اخبار / حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کا جہاد عاشورائی ثقافت کی بقا کا سبب بنا

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کا جہاد عاشورائی ثقافت کی بقا کا سبب بنا

حجۃ الاسلام و المسلمین عالم الہدی نے کہا کہ حضرت زینب س نے بنی امیہ کے پروپیگنڈے کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دیا اور اپنے خطبوں کے ذریعے شہدائے کربلا کے خون کا دفاع کرتی رہیں۔

  حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے۔ حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کی ولادت ہجرت کے پانچویں سال 5 جمادی الاول کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ کی پرورش ایک ایسے گھر میں ہوئی جہاں عبادت کو زندگی کا نچوڑ اور زیور سمجھا جاتا تھا۔

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی سیرت اس طرح بنی کہ ہر پہلو سے اپنے اسلاف اور اپنے محترم والدین کے فضائل و کمالات کا مرقع ٹھہریں۔

آپ ایک ایسا مکمل آئینہ تھیں جس میں اہل بیت (ع) کی عظمت کو دیکھا جا سکتا تھا۔

 امام سجاد (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: بے شک ہماری پھوپھی زینب (سلام اللہ علیہا) کوفہ سے شام تک ہمارے سفر میں اپنی تمام واجب اور مستحب نمازیں کھڑے ہوکر پڑھتی تھیں البتہ راستے میں بعض جگہوں میں بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں وہ بھی شدت بھوک اور کمزوری کی وجہ سے، کیونکہ تین راتوں تک  دیا گیا کھانا بچوں میں تقسیم کرتی تھیں، اس لئے اشقیاء ہمیں دن رات میں صرف ایک روٹی دیتے تھے۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) خدا کی یاد کو زندگی کی حقیقی لذت سمجھتی ہیں۔

 آپ کی نگاہ میں خدا کا ذکر کیے بغیر زندگی بدترین موت ہے

آپ کا وجود مرکز تجلیات الہی تھا جس کے سبب دنیا کی تاریکیاں اور مصائب و آلام آپ کی نگاہ میں شرین ہوجاتے۔ شوق عبادت نے غموں اور آفات کی تلخیوں کو آپ کے لئے خوشگوار بنا دیا ہے۔

کوفہ اور شام میں حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے خطبات ایسے دلکش دستاویزات ہیں جو ان کے علمی مقام کو ثابت کرتے ہیں، سفیر کربلا کے خطبات میں جو علمی اور ادبی نکات اور معانی استعمال کیے گئے ہیں وہ اس قدر بلند ہیں کہ ہر صاحب علم و فکر قاری کو اس کی لطافت اور فصاحت جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

ان تمام فضیلتوں اور حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کی شخصیت کی عظمت کے باوجود جب ہم تاریخی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو حضرت زینب س کی شخصیت کے بارے میں موجود تاریخی روایات آپ کا مکمل اور جامو کا تعارف نہیں کروا سکتیں۔

 حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے یوم ولادت کے موقع پر ان کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے حضرت قاسم بن الحسن ہائر ایجوکیشن کمپلیکس کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد باقر علم الہدی سے گفتگو کی۔

حضرت قاسم بن الحسن (ع)  ہائر ایجوکیشن کمپلیکس کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد باقر علم الہدی نے مہر نیوز کے رپورٹر کے ساتھ انٹرویو میں حضرت زینب (ع) کے بعد از عاشورا کے تربیتی کردار کے بارے میں کہا: امام حسین (ع) کی تحریک عاشورہ اصل میں ایک ثقافتی  نہضت تھی، فوجی اور عسکری تحریک بالکل بھی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین ع  مدینہ سے خروج کے بعد مکہ شہر میں اس وقت کے عرب عمائدین اور  قبائل کے سرداروں کے ساتھ مذاکرات میں مسلسل ثقافتی معارف اور حریت پسندانہ طرز زندگی کی ترویج فرما رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا: آزادی اور حریت کا درس عاشورہ میں ہر جگہ واضح نظر آتا ہے حتیٰ کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں حضرت امام حسین نے انسانیت کو ایک قیمتی اور پائیدار رجحان سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور تم کو قیامت کے دن کا خوف نہیں ہے تو کم از کم اپنی دنیاوی زندگی کے لئے ہی آزاد بن کر جیو۔ یہ آزادی انسان کی آواز اور عاشورہ کی ثقافتی تعلیمات کا حصہ ہے جس کی طرف امام حسین (ع) نے عاشورہ کے دن اشارہ کیا۔  آزادی کی اس تحریک کو جاری رکھنے کے لیے حضرت زینب کو ذمہ داری سونپ دی گئی۔

حجت الاسلام علم الہدی نے اس سوال کے جواب میں کہ اس ثقافتی تحریک کی قیادت اور پرچم واقعہ عاشورا کے بعد  حضرت زینب کیوں سونپا گیا، کہا کہ اس وقت کے تمام مرد امام حسین علیہ السلام کے خطابات اور احکام سن چکے تھے اور ان پر حجت تمام ہوچکی تھی، اسی لیے امام حسین اس  تحریک کو اس وقت کے معاشرے میں خواتین کے ذریعے آگے بڑھانا چاہتے تھے اور خواتین کو منظر عام پر لانا چاہتے تھے۔ تاکہ اس سوئے ہوئے معاشرے کی خواتین کو جگانے کے لیے اسی معاشرے کی خواتین میں سے ایک شخصیت کا انتخاب کیا گیا اور وہ شخصیت حضرت زینب کے علاوہ کوئی اور نہیں  تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب دو شہیدوں کی ماں اور چار شہداء کی بہن ہیں اور اس واقعہ میں ان کے بھانجے اور بنی ہاشم کے 18 جوان شہید ہوئے تھے۔ دشمنوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا سخت مصیبت زدہ اور قیدی ہونے کے باوجود جب وہ شہر کوفہ میں داخل ہوتی ہیں تو خطبہ پڑھنا شروع کر دیتی ہیں۔کیونکہ امام حسین علیہ السلام نے تحریک عاشورہ کا ثقافتی پرچم ان کے سپرد کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہاکہ  حضرت زینب (ع) کی زیر قیادت اس ثقافتی آگاہی کے طوفان نے کوفہ میں عبید اللہ بن زیاد کے لیے اتنی مشکلات کھڑی کر دیں کہ اسے یزید کو خط لکھنا پڑا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ کوفہ تمہارے قبضے میں رہے؟ تو میں  قیدیوں کو مزید نہیں رکھ سکتا۔

کوفہ کی عورتوں نے حضرت زینب سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور ان کی طرف سے منعقد ہونے والی مجالس اور ماتم میں شرکت کی اور ہمارے تمام سپاہی مجبور ہیں۔ اپنی جان کے خوف سے گھروں سے نہ نکلیں کیونکہ اگر وہ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو انہیں کوفی بچوں کی طرف سے پتھراؤ اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حالات انتہائی مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ خط ملنے کے بعد یزید نے عبید اللہ کو جواب دیا اور کہا کہ اگر تم قیدی نہیں رکھ سکتے تو شام بھیج دو۔

علم الہدی نے بیان کیا کہ حضرت زینب جب قید میں تھیں، مشکل حالات میں ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہو رہی تھیں، لیکن  اہل بیت کی مظلومیت کا پرچم تھامے رکھا اور گوشہ و کنار میں پیغام عاشورا کو پھیلایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب قیدی یزید کے محل میں داخل ہوئے تو یزید نے حضرت زینب سے کہا کہ کیا تم نے دیکھا کہ خدا نے تمہارے بھائی حسین کے ساتھ کیا کیا؟ حضرت زینب نے جواب دیا کہ ہم نے خیر و خوبی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور یہ ایک لازوال جملہ ہے جو حضرت زینب کے کلام میں موجود ہے۔ حضرت زینب س نے فرمایا کہ ہم نے کربلا میں جو کچھ دیکھا وہ خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں تھا اس طرح حضرت زینب یزید کی مجلس میں اپنی موجودگی اور مزاحمت کا اعلان کرتی ہیں۔

حضرت قاسم بن الحسن (ع) تعلیمی کمپلیکس کے سربراہ نے مزید کہا: حضرت زینب کے تمام بیانات اور خطبے در اصل ایک تحریک اور یادگار نہضت کی ترجمانی کرتے ہیں جو عاشورا کی جہادی ثقافت کی بقاء کا سبب بنے۔

حجت الاسلام علم الہدی نے کہا کہ امام حسین نے عاشورہ کے دن یہ درس دیا کہ فتح حاصل کرنے کے لیے خون کے دریا کو عبور کرنا ہوگا اور حضرت زینب نے اس ثقافتی تحریک کو آگے بڑھایا۔ امام حسین نے خون کے اس دریا کو عبور کیا تاہم حضرت زینب نے عاشورائی اقدار کی راہ میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مبارک اور طاقتور تحریک کو دشمن کے شیطانی پروپیگنڈوں سے بچایا۔ اگر یہ مبارک تحریک نہ ہوتی تو دشمن اہل بیت کے خلاف جنگ جیت چکا ہوتا لیکن حضرت زینب نے بنی امیہ کے پروپیگنڈے خلاف تن تنہا کھڑی رہیں اور اپنے خطبوں سے شہدائے کربلا کے خون کا دفاع کرتی رہیں۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے