Breaking News
Home / اخبار / جنگی مجرم کون ہوتا ہےاور اس کا تعین کیسے ہوتا ہے ؟

جنگی مجرم کون ہوتا ہےاور اس کا تعین کیسے ہوتا ہے ؟

 یوکرین میں جاری قتل وغارت گری پر،جہاں ہسپتال اورزچہ و بچہ وارڈ ز بھی بمباری کی زد میں آ چکے ہیں ،امریکی صدر جو بائیڈ نے روس  کےولادیمیر پیوٹن کو کھلے عام ، جنگی مجرم کے خطاب سے نوازا ہے۔منگل کے روز بائیڈن کے اس اصطلاح کے استعمال کے بعد،وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین پساکی نے کہا کہ صدر اپنے دل کی بات کر رہے تھے۔ اس نے بیان کی تعبیر نو کرتے ہوئے کہاکہ اس کےباضابطہ تعین کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے۔”واضح طور پر پیوٹن ایک  جنگی مجرم ہے، لیکن صدر اس پر سیاسی طور پر بات کر رہے تھے،” ڈیوڈ کرین نےکہا ،جوکئی عشروں تک جنگی جرائم  پرکام کرتے رہے ہیں۔اور انہوں نے سیرالیون کے لیے یو-این کی خصوصی عدالت  میں بطور چیف پراسیکیوٹر کام کیا ہےجس میں لائبیریا کے صدر چارلس ٹیلر پر مقدمہ چلتا رہا ہے۔

پیوٹن کی سرگرمیوں پر تحقیقا ت کا آغاز پہلے ہی ہو چکا  ہے۔انکوئری کمیشن کے قیام کےلیے،اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی قراردادکی منظوری کےبعد،امریکہ اور دیگر چوالیس  ممالک  ممکنہ خلاف ورزیوں اور  زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے مشترکہ بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔نیدر لینڈ میں قائم ایک آزاد ادارے کر طور پر، بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے ایک الگ انکوئری کی جار ہی ہے۔” ہم ابھی آغاز کے بھی  شروع میں ہیں،” کرین نے کہا جوکہ عالمی احتساب نیٹ ورک کےسربراہ ہیں۔ جو اور دوسروں  کے علاو،ہ بین الاقوامی عدالت اور اقوام متحدہ کے ساتھ کام  کرتا ہے۔جس روز روس نے یوکرین پر حملہ کیا ، اسی روز کرین کے گروپ نےجنگی جرائم پر مواد جمع کرنے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دے  دی۔وہ پیوٹن کےخلاف فرد جرم کا نمونہ تیار کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں۔انہوں نے پیش گوئی کی ہے پیوٹن کی فرد جرمایک سال کے اندر اندر تیار ہو جائے گی ،لیکن اس کی حد مقرر کرنےکا کوئی قانون موجود  نہیں۔

مسلح تصادم کا قانون

یہ اصطلاح ہر اس شخص پر لاگو ہوتی ہے، جو ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے جوقوانین عالمی رہنماؤں کی طرف  سے ،  "مسلح تصادم کے قانون "کے طور پر اختیار  کیے گئے ہیں۔یہ قوانین اس امر  کی وضاحت کرتے ہیں کہ  زمانہ جنگ میں ممالک کو کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔دوسری جنگ عظیم کے عواقب کےنتیجے میں اوربعد ازاں،دیگر دپروٹوکول کے اضافے کے ساتھ،یہ  قوانین ،جنیوا کنونش سے اخذ کیے گئے اور ان میں گزشتہ صدی کے دوران کئی  تبدیلیاں کی گئیں اور ان میں وسعت لائی گئی۔

ان قوانین کا مقصد ان لوگوں کی حفاظت یقینی بنانا ہے جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے اور وہ جو مزید جنگ نہیں کر سکتے۔ ان میں اور کے علاوہ مندرجہ زیل سویلین  کو بھی شامل کیا گیا ہے:ڈاکٹرزاورنرسززخمی سپاہی اور جنگی قیدی وغیرہ۔معاہدے اور پروٹوکولز اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کس کو ، کن ہتھیاروں کے ساتھ نشانہ بنایا جا سکتاہے۔ بعض ہتھیار ممنوعہ ہیں، جن میں کیمیکل  اور حیاتیاتی ہتھیار  شامل ہیں۔

کون سے جرائم کسی شخص کو جنگی مجرم ٹھہراتے ہیں ؟

کنونشن کی، نام نہاد ‘ بڑی خلاف ورزیاں’ جو کہ جنگی جرائم کا درجہ رکھتی ہیں ، ان میں شامل ہیں: قتل عمد اور وسیع تباہی اور اس جائداد پر قبضہ جس کا جواز فوجی ضرورت کے طور پر نہ ہو۔دوسرے جرائم میں، سویلین کو عمدا” نشانہ بنانا غیرمناسب طاقت کا استعمال ، انسانوں کو ڈھال بنانا اور انہیں بندی بنانا شامل ہیں۔عالمی عدالت انصاف انسانیت کے خلاف کئےگئے ان  جرائم پر بھی کاروائی کرتی ہے جوکسی بھی ” سول آبادی کےخلاف ایک وسیع اور منظم حملےکے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔ ” ان میں قتل، بربادی، جبری منتقلی، ازیت، جبری زنا اور جنسی غلامی شامل ہیں۔

انصاف حاصل کرنےکا طریقہ کیا ہے؟

عموماً، جنگی جرائم کی تفتیش  اور تعین کے چار طریقےاختیار کیے جاتے  ہیں، اگر چہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ ان میں سے ایک عالمی عدالت انصاف کا ہے۔ایک دوسرا آپشن یہ ہو گا کہ اقوام متحدہ ، اپنے انکوائری کمیشن کے کام کو بدل کر ،پیوٹن کے خلاف کاروائی کے لیے  ایک” ہائبرڈ بین الاقوامی جنگی ٹریبیونل” قائم کرے۔ ایک تیسرا راستہ یہ  ہوگا کہ دلچسپی رکھنے والے متعلقہ ممالک کا گروپ ،پیوٹن کے خلاف کیس چلانےکےلیے ایک ٹریبیونل یا عدالت قائم کرے، جیسا کہ نیٹو ، یورپی یونین اور امریکہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، نازی لیڈروں کےخلاف،ے نیورمبرگ میں قائم کیا گیا فوجی ٹریبیونل اس کی مثال ہے۔

آخری نقطہ یہ بھی ہے کہ بعض ممالک کےجنگی جرائم کے اپنے قوانین ہیں۔ جرمنی، مثال کے طور پر،پہلے ہی پیوٹن کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے۔امریکہ میں ایسا کوئی قانون نہیں ، لیکن محکمہ انصاف کا ایک مخصوص شعبہ ہے جو بین الاقوامی نسل کشی، تشد د ، بچوں کو سپاہی بنانے اور عورتوں کے اعضائےتناسل کے ختنےکرنے جیسے جرائم کے متعلق ہے۔

پیوٹن پر مقدمہ کہاں چلایا جا سکتاہے ؟

یہ واضح نہیں ہے۔ روس بین الاقوامی عدالت انصاف کو تسلیم نہیں کرتا اور ھیگ ،نیدر لینڈ میں عدالت کے ہیڈ کوارٹر میں پیوٹن کو نہیں  بھیجے گا۔ امریکہ بھی عدالت کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ پیوٹن پر مقدمہ اس ملک میں چلایا جا سکتاہے جسے اقوام متحدہ منتخب کرے گی یا پھر متعلقہ اقوام کنسورشیم منتخب کرے گا۔لیکن اسے وہاں لے جانا مشکل ہو گا۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے