بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آلہ الطّیّبین الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

آپ سب کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ کافی عرصے بعد آپ حضرات و خواتین کی زیارت ہوئي۔ جناب مصباح صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنا اعلی دینی تعلیمی مرکز، علمائے دین، ہم سبھی کا فرض ہے۔ انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کا مطلب، ان کے افکار اور ان کی راہ کو زندہ رکھنا ہے۔

مرحوم مصباح رضوان اللہ علیہ کی کچھ منفرد خصوصیات تھیں، قم کے نمایاں ‌فضلاء پر، جنھیں میں قدیم ایام سے جانتا ہوں اور بحمد اللہ ان میں سے بعض کے وجود کی برکتیں اب بھی جاری ہیں، جب میں نظر ڈالتا ہوں تو ان میں سے کسی میں بھی یہ تمام خصوصیات ایک ساتھ نظر نہیں آتیں جو مرحوم مصباح صاحب میں تھیں۔ بے پناہ علم، اچھی اور جدید سوچ، واضح اور سلیس بیان، کبھی نہ ختم ہونے والا اور بے نظیر جذبہ عمل، بہترین اور ممتاز روش و اخلاق، سلوک، عرفان، روحانی توجہ وغیرہ، ان سب کو ایک ساتھ جمع کر پانا ممکن نہیں ہے۔ یہ ساری صفات مصباح صاحب میں یکجا موجود تھیں۔

آخرکار جانا سبھی کو ہے: اِنَّكَ مَيِّتٌ وَ اِنَّھُم مَّيِّتُون (1) حالانکہ یہ خسارہ ہے لیکن کوئي چارہ نہیں ہے، ہم مجبور ہیں، علاج یہ ہے کہ وہ راستہ جاری رہے، وہ جدید افکار اور وہ کام جو انھوں نے انجام دیے ہیں: یہی ‘منصوبۂ ولایت’ جو ان کی جدت طرازیوں میں سے ایک ہے، یہی امام خمینی تحقیقاتی مرکز(2) کا بڑا ادارہ ان کی جدت طرازیوں میں سے ایک ہے، جو کتابیں انھوں نے لکھی ہیں، چاہے وہ علمی کتابیں ہوں، چاہے اخلاقیات و روحانیت سے متعلق ہوں یا پھر عام لوگوں کے استفادے کے لیے ہوں، ان ہی کاموں میں سے ہیں، انھیں رکنے نہیں دینا چاہیے۔ بحمد اللہ، ان کے کام ہر لحاظ سے اچھے ہیں۔ تقریر کی صورت میں جو کام انھوں نے کیے ہیں وہ بہت اچھے ہیں۔ وہ ایک عرصے تک اس امام بارگاہ میں تقریر کرتے تھے، جو ماہ رمضان میں شام کے وقت ٹی وی سے نشر ہوتی تھیں، میں بیٹھ کر وہ سنا کرتا تھا، یہ تو یاد نہیں کہ کب کی بات ہے لیکن میں شام کے وقت بیٹھ کر سنتا تھا، ماہ رمضان میں شام کا وقت ہوتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ واقعی یہ بہت اچھی باتیں ہیں، انسان بیٹھ کر سنتا ہے اور استفادہ کرتا ہے۔ تو یہ چیزیں رکنی نہیں چاہیے، انھیں بھلایا نہیں جانا چاہیے، فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ان کے صوتی کام بھی ہیں اور تحریری کام بھی ہیں اور اسی طرح مراکز کی تعمیر کے کام بھی ہیں، جن میں سے ایک کا میں نے نام لیا، شاید اس کے علاوہ بھی ہیں جن کی مجھے خبر نہیں ہے۔ الحمد للہ ان کے بچے بھی بہت اچھے ہیں، اچھے صاحبزادے ہیں، وَ بَثَّ مِنھُما رِجالاً كَثيراً وَ نِساء (3) الحمد للہ، ان کی نسل کی برکتیں بھی بڑی اچھی ہیں۔

ان کاموں کی حفاظت کے سلسلے میں جو ایک نکتہ پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کاموں میں فرسودگی نہ آنے دیں۔ یعنی جس دن انھوں نے اس امام خمینی سینٹر کو شروع کیا تھا، ایک نیا کام تھا، اگر آج بھی اسے اسی طرح چلایا جائے جیسے پہلے دن چلایا جا رہا تھا تو کیا آج بھی اس میں وہی  تازگی ہے؟ یہ قابل غور ہے، یہ آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ رجبی صاحب (4) اور آپ حضرات دیکھیے کہ کیا کیا جائے کہ وہ تازگي اور نشاط باقی رہے۔ جب انھوں نے ابتدا میں یہ کام شروع کیا تھا، تو یہ بالکل نئے طرز کا کام تھا اور اس نے اپنی جانب لوگوں کی توجہ مرکوز کی تھی، اب بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔

یا مثال کے طور پر ان کی کتابیں۔ ان کی کچھ کتابیں علمی ہیں، درسی ہیں، مثال کے طور پر فلسفے کی ہیں، ان کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں جہاں جہاں ضرورت ہو، انھیں پڑھایا جائے، لیکن ان کے کچھ تحریری کام ایسے ہیں جنھیں ذہنوں میں راسخ کرنا ہوگا۔ علم و فن وغیرہ کی بحث نہیں ہے، سوچ ہے جو پڑھنے والے کے ذہن میں بیٹھ جانی چاہیے۔ کیسے ذہنوں میں بٹھایا جا سکتا ہے؟ آج صرف اس بات سے معاملہ ختم نہیں ہو جاتا کہ کسی کتاب کے شائع شدہ نسخے زیادہ ہیں یا کم ہیں، مطلب یہ کہ ایسی فکری کتابیں اس طرح سے محفوظ نہیں رہتیں۔ ہاں بعض کتابیں ہیں جن کے شائع شدہ نسخوں کی تعداد جب زیادہ ہوتی ہے تو اسے ایک کامیابی مانا جاتا ہے، مثال کے طور پر وہ کتابیں جو شہیدوں کی زندگي کے بارے میں لکھی جاتی ہیں، جتنے زیادہ لوگ ان کتابوں کو پڑھیں گے، اتنا ہی زیادہ بہرہ مند ہوں گے۔ مگر فکری کتابیں ایسی نہیں ہوتیں، فکری کتابوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اذہان میں اتر جائیں اور یہ چیز صرف کتاب کی اشاعت سے حاصل نہیں ہوتی۔ آپ دیکھیے کہ مغرب والے اس کام میں بڑے ماہر ہیں، اس سے اچھی طرح واقف ہیں، مثال کے طور پر دیکھیے کہ کسی مفکر جیسے ہیگل نے کتنی کتابیں لکھی  ہیں؟ اس کے افکار کو ان کتابوں سے نکالتے ہیں، ان کی تلخیص کرتے ہیں، خلاصہ کرتے ہیں، اس فکر کو مختلف طرح کے بیانوں کے ذریعے، مختلف زبانوں میں، مختلف طریقوں سے پھیلا دیتے ہیں، شائع کر دیتے ہیں۔ یہی کام مرحوم کے سلسلے میں بھی انجام پانا چاہیے۔

البتہ مجھے لگتا ہے کہ پہلے میں نے یہ بات خود مرحوم مصباح صاحب (رحمت اللہ علیہ) یا ان کے بعض شاگردوں سے ملا صدرا کے سلسلے میں کہی تھی کہ ملا صدرا کی کتاب پڑھائي جاتی ہے لیکن ملا صدرا کی باتوں کا لب لباب کیا ہے؟ ملا صدرا کی کچھ بنیادی باتیں ہیں، انھیں تلاش کیجیے، باہر نکالیے، ان پر بحث ہو، کام کیا جائے، کتاب لکھی جائے، مباحثے ہوں، یہ ضروری ہے۔ خود مصباح صاحب کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے اور اسی طرح کام کیا جانا چاہیے۔ دیکھیے کہ ان کا فکری رجحان، ان کے فکری تمرکز کا نقطہ کیا ہے؟ چاہے وہ فلسفیانہ مسائل میں ہو، چاہے عقیدتی اور فکری مسائل میں ہو، سائبر اسپیس وغیرہ میں نشر ہوتا ہے، ان کی باتوں کے ایک حصے کو نشر کیجیے، یہ ذہنوں تک پہنچ جائے، زبانوں پر آ جائے، دوہرایا جائے اور ضرب المثل کی طرح جو زبانوں پر دوہرائي جاتی ہیں اور دائمی ہو جاتی ہیں، یہ فکر بھی دائمی ہو جائے اور واضح رہے کہ یہ جناب مصباح صاحب کی سوچ ہے، جیسے ہی کچھ لوگ مصباح صاحب کا نام لیں، جس نے بھی ان حصوں اور ٹکڑوں اور تحریروں کو دیکھا ہے، اس کا ذہن ان میں سے کسی ایک کی طرف متوجہ ہو جائے، اسے یاد آ جائے۔ مصباح صاحب جیسے کسی ممتاز اور گہرے مفکر کی سوچ کو پھیلانے کی راہوں میں سے ایک، یہ ہے۔

آڈیو بھی بہت اچھی چیز ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک تقریر کو شروع سے لے کر آخر تک نشر کریں- شاید اس سے تقریر کا اثر بھی کسی حد تک کم ہو جائے- لیکن بہرحال ایک گھنٹے کی یا پونا گھنٹے کی ایک آڈیو سے، جس نے سامعین کو پوری طرح سے مجذوب کر رکھا تھا، مثال کے طور پر پندرہ منٹ کا مواد نکالا ہی جا سکتا ہے۔

امام بارگاہ میں ان کی تقاریر(5) میں ایک چیز نے اپنی طرف میری توجہ بہت زیادہ مبذول کی ہے، وہ یہ کہ جب تقریر کی ویڈیو نشر ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو سامعین بیٹھے ہیں، وہ سب نوجوان ہیں، یعنی مثال کے طور ان کے درمیان چالیس سال سے اوپر کا کوئي بھی شخص دکھائي نہیں دیتا، سبھی جوان ہیں۔ دوسرے یہ کہ سبھی پوری طرح تقریر سننے میں محو ہیں! یہ بہت اہم بات ہے۔ چونکہ میں خود مقرر ہوں، میں نے دسیوں سال تقریر کی ہے اس لیے میں ان باتوں کو خوب سمجھتا ہوں۔ مقرر کب سمجھتا ہے کہ وہ کامیاب ہے؟ سامعین کی نظریں، ان کا رویہ اور ان کے حرکات و سکنات، ایک حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں، یہ چیز آپ ان کی تقریروں میں دیکھتے ہیں، مطلب یہ کہ یہ چیز مجھے اپنی طرف بہت مجذوب کرتی ہے۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں کہ جس نے سبھی دلوں کو، نظروں کو اپنی طرف مرکوز کر لیا ہے، مسحور کر دیا ہے؟ ان خاص حصوں کو تلاش کیجیے اور انھیں بار بار نشر کیجیے۔

بحمد اللہ قومی نشریاتی ادارے نے اس معاملے میں اچھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ کبھی ہوتا ہے کہ میڈیا وغیرہ کے ذمہ داران کسی چیز کے بارے میں دلچسپی ظاہر نہیں کرتے لیکن بحمد اللہ مرحوم کے کاموں کے سلسلے میں قومی ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے نے اچھا رخ اختیار کیا ہے اور مختلف اوقات میں ان کے پروگرام نشر کرتے ہیں۔ میں کبھی کبھی آتے جاتے دیکھتا ہوں یا کبھی بیٹھ کر دیکھتا ہوں کہ ان کے بارے میں بہت سی چیزیں نشر کی جاتی ہیں۔ مصباح صاحب کی حیات یہ ہے، ان کا زندہ ہونا یہ ہے۔

ان کا جسم چلا گيا، افسوس کی بات ہے، بہت ہی افسوس کی بات ہے، ان کا وجود حقیقی معنی میں برکتوں کا سرچشمہ تھا، انسان ان سے مل کر استفادہ کرتا تھا، وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں ہم نے اب نہیں بلکہ ان کی جوانی کے وقت سے دیکھا ہے، اس وقت سے شاید جب ان کی شادی بھی نہیں ہوئي تھی – قم آنے سے پہلے ہی مشہد میں ان سے میری ملاقات ہوئی تھی، غالبا سنہ انیس سو ستاون-اٹھاون کی بات ہے- اسی وقت سے سمجھ میں آ گيا تھا کہ وہ ایک متدین، دیندار اور متقی انسان ہیں۔ وہ ان افراد میں سے تھے کہ "مَن یُذَکِّرُکُمُ اللّہَ رُؤیَتُہ”(6) انھیں دیکھنا بھی انسان کی مدد کرتا تھا، بلندی عطا کرتا تھا، خدا کی یاد دلاتا تھا۔ جوانی کا زمانہ جیسے جیسے گزرتا گيا وہ بہتر سے بہتر ہوتے گئے، حالانکہ جو بھی ہے، وہ اسی جوانی کے زمانے کا ہے۔ آپ جوان، اس زمانے اور جوانی کے وقت کی قدروقیمت سمجھیے، جو چیز، آخر میں کام آئے گی، فائدہ مند ثابت ہوگي اور انسان کے پاس باقی رہے گي، وہ یہی چیز ہے جو اس وقت آپ لوگ حاصل کر رہے ہیں اور حاصل کر چکے ہیں۔ جوان، اپنی جوانی کی قدروقیمت سمجھیں۔

خداوند عالم مرحوم کے درجات بلند کرے۔ جی ہاں! ان کو گزرے ہوئے دو سال ہو گئے، دو جنوری تھی۔ ان شاء اللہ خداوند متعال ان کے درجات بلند کرے اور انھیں اپنی رحمت و مغفرت سے نوازے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ

(1) سورۂ زمر، آيت 30، اے پیغمبر! آپ کو بھی مرنا ہے اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔

(2) امام خمینی تعلیمی و تحقیقاتی مرکز۔

(3) سورۂ نساء، آیت 1، اور پھر اس نے ان ہی دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔

(4) امام خمینی تعلیمی و تحقیقاتی مرکز کے موجودہ سربراہ آیت اللہ محمود رجبی

(5) قم میں رہبر انقلاب اسلامی کے دفتر کی امام بارگاہ میں برسوں تک مرحوم آيت اللہ مصباح یزدی کا درس اخلاق منعقد ہوتا رہا ہے۔

(6) کافی، جلد 1، صفحہ 39