Breaking News
Home / اخبار / جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کو متنازعہ کیوں بنادیا گیا؟

جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کو متنازعہ کیوں بنادیا گیا؟

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کردی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائیز عیسی اور جسٹس سردار طارق سمیت دیگر ممبران نے شرکت کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جے سی پی کے اجلاس کی صدارت کی اور جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کو 4 کے مقابلے 5 ووٹوں کی اکثریت سے  منظور کیا۔ جے سی پی کی سفارش کے بعد جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ میں ملک کی پہلی خاتون جج بن جائیں گی۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ جے سی پی نے جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس کیا۔ گزشتہ سال 9 ستمبر کو جے سی پی کی ایک توسیعی اجلاس کے دوران اتفاق رائے کی کمی نے کمیشن کو اس کی ترقی کو مسترد کرنے پر مجبور کیا تھا۔

یاد رہے کہ  ان کے نام پر بار کی جانب سے مخالفت کی جا رہی تھی اور اس کی وجوہات متعدد تھیں۔ تاہم، جو اعتراض سب سے بڑھ کر سامنے آیا تھا اور جس کی وجہ سے ان کی تقرری ستمبر 2021 میں 4 کے مقابلے میں 4 ووٹ سے رک گئی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے سینیئر ججز موجود تھے اور 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس کے بعد سے ججز کی تقرری میں سنیارٹی کے اصول کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور بار دونوں میں اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے افراد کا کہنا تھا کہ اگر سنیارٹی کے اصول کو قربان کرنا بھی ہے تو پھر کوئی دوسرا اصول وضع کر لیں لیکن محض اس بنیاد پر کسی کو سپریم کورٹ پہنچا دینا کہ وہ خاتون ہے ممکن ہے کہ ان سے سینیئر اور زیادہ قابل ججز کا استحقاق مجروح کرتا ہو۔ کیونکہ قابلیت کا بھی کوئی معیار طے نہیں کیا گیا، محض فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک ایک خاتون ہیں اور ہمیں تاریخ رقم کرنی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اس عہدہ پر فائز ہونے کی اہل خاتون ہیں۔ ان کی سپریم کورٹ میں تقرری سے پہلی بار کوئی خاتون ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جج مقرر ہوں گی۔ اس لحاظ سے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ پاکستان اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تقرری کے حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹس میں خال خال ہی خواتین جج دکھائی دیتی ہیں اور اب پہلی بار کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج بننے والی ہیں۔ تاہم جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کے حوالے سے سامنے آنے والا اختلاف اور تنازعہ مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ ملک کے وکلا کی تنظیمیں اور چیف جسٹس کے درمیان اس معاملہ پر افہام و تفہیم پیدا ہوجاتی۔  شدید اختلاف کی فضا میں کسی خاتون کی پہلی بار پاکستان سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری سے یہی تاثر پیدا ہوگا کہ پاکستانی سماج ابھی تک خواتین کو مساوی مواقع دینے اور عدالتوں میں توازن پیدا کرنے کے سوال پر تضادات کا شکار ہے۔ اس تاثر سے نہ صرف عالمی طور سے ملک کی شہرت داغدار ہوتی ہے بلکہ مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والی خواتین کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔

پاکستان میں اس وقت شدت پسندی کا جو ماحول دکھائی دیتا ہے، اسے کم کرنے کے لئے خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں آبادی کے تناسب سے خواتین کو  نمائندگی  دے کر ہی معاشرے میں افہام و تفہیم، قبولیت اور متوازن رویوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ دنیا خواتین کو مساوی حقوق دینے کے معاملہ میں بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن دعوؤں اور نعروں کے باوجود پاکستان میں خواتین کو ابھی تک اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لئے بھی شدید جد و جہد کرنا پڑتی ہے۔ ملکی سیاست اس حوالے سے بنیادی مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ آئینی طور سے خواتیں کو خصوصی نشستوں پر ضرور منتخب کیا جاتا ہے لیکن انتخابی حلقوں کا ماحول ابھی تک اس قابل نہیں بنایا جا سکا کہ خواتین میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر مردوں کے مقابلے میں اتریں اور عوام سے براہ راست ووٹ لے کر اسمبلی کی رکن منتخب ہوں۔

ملک کی بار کونسل اور ایسوسی ایشنز کو جسٹس عائشہ ملک کے معاملہ میں سینارٹی کی بحث سے پہلے یہ مطالبہ بھی کرنا چاہئے تھا کہ ملک کی تمام ہائی کورٹس میں نئی تقرریوں میں خواتین کو مساوی تعداد میں شامل کیا جائے۔ اس طریقہ کے تحت جب ہائی کورٹس میں خاتون ججوں کی اتنی تعداد ہوجائے گی کہ وہ سینارٹی کے اصول پر مردوں کے مقابل اتر سکیں پھر خواتین پر سینارٹی کا اصول لاگو کرنا درست اقدام ہو گا۔ تاہم اس سے پہلے عدالت عظمیٰ میں تقرری کے لئے کسی اہل اور قابل جج کو ترجیحی بنیاد پر مقرر کرنا ایک مناسب اور قابل قبول اقدام ہونا چاہئے۔ اس کی نظیر کے طور پر اسمبلیوں میں خواتین کے لئے کوٹہ سسٹم کی مثال دی جاسکتی ہے۔ کوئی سسٹم کسی بھی حالت میں کوئی مثالی حل نہیں ہوتا لیکن کسی طبقہ کی محرومی کو کم کرنے کے لئے اکثر اوقات اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس طریقہ کو متعارف کرنے کے بعد مساوی مواقع اور امکانات کے لئے حالات سازگار بنانا بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرنا ضروری ہے۔

ایک طرف جسٹس عائشہ ملک کی مناسب سینارٹی نہ ہونے کی وجہ سے وکلا تنظیوں کا سخت گیر رویہ دیکھنے میں آیا تو دوسری طرف چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن میں حکومتی نمائیندوں (وزیر قانون اور اٹارنی جنرل)  نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی مناسب کوشش نہیں کی۔ بلکہ یہ مقصد حاصل کے لئے بالواسطہ ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے خود ہی جسٹس عائشہ ملک کا نام دوبارہ تجویز کرتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض تین ہفتے قبل جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کر لیا۔ اس دوران کمیشن میں ایک ایسے ریٹائرڈ جج کو رکن کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا تھا جو جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کا حامی تھا۔ سپریم کورٹ میں کسی خاتون کو جگہ دینے کے لئے اس طرح کے بالواسطہ طریقوں کی بجائے کھلے ذہن سے مکالمہ کی ضرورت تھی تاکہ ایسا قدم اٹھاتے ہوئے عمومی اتفاق رائے موجود ہوتا اور تنازعہ و اختلاف کی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سارا تنازع غیر ضروری تھا۔ جسٹس عائشہ ملک کو سنیارٹی کا اصول قربان کرتے ہوئے سپریم کورٹ بھیجنے سے ان کا دو سال لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بننے کا استحقاق ختم ہو گیا۔ اور سنیارٹی کے اصول کی پابندی کرتے ہوئے بھی انہوں نے بعد ازاں سپریم کورٹ کا جج بن ہی جانا تھا۔ لیکن اب ان کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔

جمعتہ المبارک، 7 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

امریکی طلباء کے احتجاج کا دلچسب انداز/یونیورسٹی سربراہ کو فلسطینی پرچم پیش کر دیا

پیٹرز امریکن یونیورسٹی کے متعدد طلباء نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے