Breaking News
Home / اخبار / اے خدا، ہمارا جرم کیا ہے؟افغان ہزارہ

اے خدا، ہمارا جرم کیا ہے؟افغان ہزارہ

ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم کا شکار اقلیت کے متاثرین خود کو تشدد کےنہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسا ہوا پاتے ہیں ۔داعش خراسان نے طالبان حکومت کو جھنجھوڑ نے کے لیے اپنی بندوقوں کا رخ ان کی جانب کر لیا ہے۔

منگل 19 اپریل کو افغانستان کے دارالحکومت کے عبدالرحیم شہید ہائی اسکول میں دوہرے دھماکوں کے چند گھنٹے بعد، اسکول کے اندر خون کے دھبوں، ٹوٹے ہوئے شیشوں اور بہت سے پھٹے ہوئے اسکول کے تھیلوں کےعلاوہ شاید ہی کچھ بچا تھا۔

میونسپلٹی کے کارکنوں کے ساتھ رہائشیوں کو تازہ خون کے نشانات دھوتے ہوئے، ملبہ اور اس حملے کی  دوسری نشانیوں کو صاف کرتے دیکھا گیا،جس میں سرکاری طور پر چھ افراد ہلاک ہوئے۔

کابل کا رہائشی 26 سالہ امید بہرامی صفائی میں مدد کرنے والوں میں سے ایک تھا۔وہ اسکول کے اندر اور باہر ہونے والے دھماکوں کا بھی عینی شاہد تھا، جو مغربی کابل میں دشت برچی کے ہزارہ شیعہ اکثریتی محلے میں واقع ہے۔

دو مرحلوں پر مشتمل حملے میں، پہلا دھماکہ سکول کے اندر ہوا اور دوسرا تقریباً 10 منٹ بعد سکول کے گیٹ کےقریب کی ایک جانب واقع گلی میں ہوا ، جس میں عینی شاہدین کے مطابق، ایسے متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے جو پہلے دھماکے سے گھبرا  کر بھاگ رہے تھے۔

بہرامی کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں اس سے زیادہ جانیں گئیں جو طالبان کی طرف سے بتائی جا رہی ہیں۔””صبح میں، میں نے طلباء کو مسکراتے چہروں، کتابوں اور قلم کے ساتھ سکول جاتے دیکھا۔ چند گھنٹوں بعد، میں ان کا خون گلیوں میں دھو رہا تھا ”  اس نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتا یا۔

"میں نے 14 لاشوں کو اکیلے اپنے کندھے پر اٹھا کر ہسپتال پہنچایا کیونکہ سائیڈ گلی تنگ تھی اور ایمبولینس وہاں نہیں جا سکتی تھی ،وہاں کئی دوسرے مردہ بھی تھے جنہیں دوسرے لوگ ہسپتال لے جا رہے تھے۔”

‘ہم بربادہو چکے ہیں’

محلے کے بہت سے رہائشیوں کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے ہے، جو کہ ایک نسلی اور مذہبی اقلیت ہے جسے اکثر داعش-خراسان گروپ کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کئی دہائیوں سے ہزارہ برادری نے اپنے خلاف حملوں میں سراسر ظلم دیکھا ہے، زچگی وارڈ پر حملے کے بعد خون میں لت پت نوزائیدہ بچوں سے لے کر شادیوں، مساجد، اور یہاں تک کہ اسپورٹس کلب بھی قتل عام کی جگہیں بن چکے ہیں۔

19 اپریل کی سہ پہر جب محمد حسن کو سکول پر حملے کی خبر ملی تو اس نے اپنے 18 سالہ بیٹے کو فون کیا کہ آیا وہ محفوظ ہے یا نہیں، لیکن اس کا فون بند تھا۔حملے کی جگہ پر پہنچ کر حسن کو پتہ چلا کہ تمام زخمیوں اور ہلاک شدگان کو کابل کے محمد علی جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

"میرا بیٹا ان لوگوں میں شامل تھا جو باہر نکلنے کی طرف بھاگے اور پھر دوسرے دھماکے میں مارے گئے۔ مجھے اس کی لاش ہسپتال میں ملی،”محمد  حسن نے ٹی آر ٹی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے کہا  ۔

"میلاد کو باکسنگ کا شوق تھا۔ وہ پریکٹس کے لیے میوند کلب جایا کرتے تھے۔ وہ میرا سب سے بڑا بچہ تھا، میرے دو اور لڑکے اور تین بیٹیاں ہیں۔ وہ ہمارے گھر کی روشنی تھی۔ وہ لوگوں کی مدد اور اپنے والدین کی خدمت کے لیے ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔”

حسن تباہ حال ہے، اس کی بیوی صدمے کی حالت میں ہے۔

ایک اور والدین، نصراللہ فیضی، جنہوں نے اپنے 18 سالہ بیٹے مہدی کو بھی اس حملے میں کھو دیا، روتے ہوئے کہا، "اے اللہ، ہماراجرم کیا ہے؟”

مشترکہ دشمن

طالبان، جنہوں نے گزشتہ سال کابل پر قبضہ کیا اور افغانستان کی نئی حکومت بنائی، نے اسکول پر حملے کی مذمت کی۔

لیکن بہت سے افغان ہزارہ کو شک ہے کہ وہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔

تاہم، طالبان، جنہوں نے 1990 کی دہائی میں اپنی حکومت کے دوران ہزارہ لوگوں کو بدعتی کے طور پر نشانہ بنایا، اب ایک مشترکہ دشمن  داعش کے خلاف ان کا واحد تحفظ ہے۔

کئی مواقع پر، انہوں نے ہزارہ کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا ہے، لیکن بہت سے لوگ اب بھی نئے حکمرانوں پر شدید عدم اعتماد کرتے ہیں، جو کہ زیادہ تر پشتون ہیں۔

ہزارہ کے ایک کارکن علی فولاد وند نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ "ہزارہ کو اس ملک کی پوری تاریخ میں ہزارہ ہونے کی وجہ سے کئی بار ظلم کا شکار بنایاگیا، ستایا گیا، علاقہ بدر کیا گیا ۔ ہمیں نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا، اور ہمیشہ ہمارے ساتھ منظم امتیازی سلوک اور غیر انسانی سلوک کیا گیا۔”

طالبان کا تحفظ ایک مذاق ہے۔ کوئی بھی حکومت ہزارہ کی حفاظت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ ایسا  چاہتے ہی نہیں تھے۔

21 اپریل کو، صوبہ بلخ کے شہر مزار شریف میں ایک شیعہ مسجد میں ایک بم حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کی ذمہ داری داعش کے گروپ نے قبول کی تھی۔

سہ دوکان مسجد میں ہونے والے دھماکے میں مزید 58 زخمی ہوئے جن میں 32 کی حالت تشویشناک ہے۔

طالبان نے کہا کہ انہوں نے مسجد میں جمعرات کو ہونے والے بم دھماکے کے "ماسٹر مائنڈ” داعش کو گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس کے ترجمان عبید اللہ عابدی نے کہا کہ اسی دن، قندوز میں کم از کم چار مزید افراد ہلاک اور 18 دیگر زخمی ہوئے جس میں طالبان حکومت کے لیے کام کرنے والے مکینکس کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔

جمعہ کے روز قندوز میں بھی نماز جمعہ کے دوران سنی مسجد میں دھماکہ ہوا جس میں 33 افراد ہلاک ہو گئے۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں داعش کے خطرے کو کم کرنے کے لیےکوششیں  جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن ملک میں دہشت گرد گروپ کی جانب سے جن بڑے حملوں کا دعویٰ کیا گیا ہے، کچھ اور ہی ثابت کرتے ہیں۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایک سینئر سیکورٹی ماہر اسفندیار میرنے ٹی آڑ ٹی ورلڈ کو بتایا، "اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف طالبان کا حقیقی خطرے کا اندازہ کھوکھلا ہے، بلکہ یہ بھی کہ طالبان ان علاقوں میں سب سے زیادہ غیر محفوظ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں جو نسبتاً محفوظ ہونے چاہئیں”۔

میر مزید کہتے ہیں، "طالبان کی انسداد بغاوت کی کارروائیوں کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ داعش کے پاس بڑے پ اور چھوٹےدونوں پیمانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور مربوط انداز میں حملہ کرنے کی کافی صلاحیت موجود ہے۔”

اگرچہ گزشتہ سال اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں مجموعی طور پر سیکورٹی کا منظر نامہ بہتر ہوا ہے، میر کا کہنا ہے کہ اکا دکاتشددکے واقعات  جاری ہیں، ملک کے مشرق اور جنوب سےداعش کا خطرہ  موجودہے، جہاں ان کے پاس "ایک بڑی جنگجو قوت اور محفو ظ سلفی آبادیوں کا ایک بڑ انیٹ ورک موجود ہے  "۔

میر کہتے ہیں، "داعش-خراسان کے موجودہ رہنما شہاب المہاجر کے پاس بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے حملوں کی منصوبہ بندی اور ہدایت کاری میں کافی مہارت دکھائی دیتی ہے۔ وہ فی الحال فرار ہے۔”

About خاکسار

Check Also

ہم سے جنگ کرنے والے پشیمان ہوں گے، حزب اللہ کے پیغام سے صہیونی پریشان

لبنانی تنظیم نے اہم صہیونی تنصیبات کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے