Breaking News
Home / اخبار / افیونی جنگیں: ایک تاریخی زخم جو فرانس اور برطانیہ نے چین کو دیا

افیونی جنگیں: ایک تاریخی زخم جو فرانس اور برطانیہ نے چین کو دیا

گزشتہ برس جولائی میں جب چینی صدر شی جن پنگ نے تیانانمن سکوائر میں کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال کی تقریب میں خطاب کیا تو ان کی تقریر کا ایک موضوع چین کے خلاف 1839 تا 1842 تک ذلت اور غلامی کے لیے افیون کی جنگ تھا۔ ان کے افسوس کو ٹھوس وجہ تھی کیونکہ یہ بدترین جنگ 4۔1 بلین لوگوں کے خلاف لڑی گئی۔ 1842 کے نانجنگ معاہدے کے تحت بہت سارے مغربی تاجروں کو چین کے شہروں میں داخلے کی اجازت دے دی گئی جس کا اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے چین کو مغربی تجارتی طور طریقے اپنانے پر مجبور کیا جس نے مغربی ممالک کو مقامی چینیوں پر ایک طرح کی برتری حاصل تھی۔ مغرب خاص طور پر برطانیہ اور فرانس نے چین پر معاشی برتری حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ افیون جنگوں نے مغرب کو چین کے استحصال کا موقع فراہم کیا۔ شی جن پنگ کی تقریر کے ذلت کے اس حوالے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ مغربی برتری اب تک کس طرح چینیوں کی روح کو زخمی کررہی ہے۔

افیون جنگ اور مغرب

1840 میں انسانی تاریخ میں ’آزاد تجارت‘ کے نام پر یہ پہلی جنگ تھی جس کا مقصد چین میں افیون فروحت کرنا تھا۔ برطانیہ اس وقت مشرقی ہندوستان میں اپنے قدم جما چکا تھا اور بنگال میں پیدا ہونے والی افیون چین میں فروحت کر کے دولت کمانا چاہتا تھا۔چین نے ایسٹ انڈیا کی جانب سے چین میں افیون کی فروخت پر ملکہ وکٹوریہ سے بھی شکایت کی لیکن افیون کی تجارت اتنی منافع بخش تھی کہ ایسٹ انڈیا نے اس کو جاری رکھا۔ چین میں افیون کی فروخت انتہائی منافع بخش کاروبار تھا لیکن چین میں اس کی تجارت پر پابندی عائد تھی۔ چین کے حکمرانوں نے ملک میں افیون کی نشے کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے شروع کیے اور یی منگچن نامی اہلکار کو یہ فریضہ سونپا۔ یی منگچن نے جب برطانوی تاجروں کے قبضے میں افیون کو جلانا شروع کیا تو اس کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ تین عیسائی پادریوں کی موجودگی میں اسے تین روز تک جلایا جاتا رہا تھا۔

اٹھارہویں صدی میں برطانیہ میں چائے کی مانگ انتہائی حد تک بڑھ چکی تھی اور برطانیہ ہر سال چین سے ساٹھ لاکھ پاؤنڈ کی چائے درآمد کرتا تھا۔ برطانیہ کو چائے کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں دقت کا سامنا تھا کیونکہ چین چاندی کے علاوہ کوئی اور چیز لینے پر رضامند نہ تھا۔برطانیہ نے چین کو سائنسی آلات، پشم کی مصنوعات اور مٹی کے برتن فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن چین کے شہنشاہ کون لانگ نے یہ کہہ کر انھیں خریدنے سے انکار کر دیا کہ یہ سب کچھ بیکار ہے اور ان کے ہم وطنوں کے لیے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔برطانیہ کے لیے چائے کی درآمد روز بروز مشکل ہو رہی تھی اور برطانیہ چین سے دولت کمانے میں کامیابی حاصل نہیں کر پا رہا تھا۔

برطانوی تاجروں نے بالآخر چین میں دولت کمانے کا ایک ذریعہ ڈھونڈ ہی نکالا۔ بنگال کی فتح کے بعد برطانیہ کو افیون کی بڑی مقدار ہاتھ آ گئی جو اس نے غیر قانونی طور پر چین کو فروحت کرنی شروع کر دی۔ چینی ادویات میں افیون کا صدیوں سے استعمال کیا جا رہا تھا لیکن اس کی فروخت پر پابندی عائد تھی۔ 15ویں صدی کے چین میں افیون کو تمباکو میں ملا کر نشے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جلد ہی چین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ افیون کا رسیا ہو گیا اور افیون کے نشے کے عادی اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔

چینی شہنشاہ یانگزنگ نے سنہ 1729 میں افیون کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن برطانوی تاجروں نے افیون پر پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کو افیون کی غیر قانونی برآمد یا سمگلنگ جاری رکھی۔ سن 1836 میں ہر سال انڈیا سے افیون سے بھرے تیس ہزار صندوق چین پہنچ رہے تھے۔ چین کے شہنشاہ نے جب برطانیہ کی طرف سے افیون برآمد کو روکنے کی کوشش کی اور تیرہ فیکٹریوں میں 42 ہزار افیون کے پائپ، اور بیس ہزار افیون سے بھرے صندوق قبضے میں لیے تو برطانوی تاجروں نے لندن پہنچ کر حکومت کو قائل کر لیا کہ وہ چین سے بدلہ لے۔ برطانوی سلطنت چین کے خلاف کارروائی پر فوری رضامند ہو گئی۔برطانیہ کے جدید بحری بیڑے کے سامنے چین کی بحری فوج انتہائی کمزور ثابت ہوئی اور صرف پانچ گھنٹوں میں اس نے گھٹنے ٹیک دیے۔ برطانوی حملے میں چین کے بیس سے پچیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے جبکہ برطانیہ کے صرف 69 فوجی ہلاک ہوئے۔

برطانیہ نے چین کو فتح کرنے کے بعد ایک ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت اس نے پانچ بندرگاہیں کھولنے کی اجازت لی۔ برطانیہ نے اس معاہدے کے تحت ہانگ کانگ جزیرے کو اپنے اختیار میں لے لیا جہاں سے افیون کی تجارت ہوتی تھی۔ برطانیہ نے تو افیون کی جنگ کو تاریخ کے حوالے کر دیا ہے لیکن چین نے ایسا نہیں کیا ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کی ڈاکٹر زینگ یانگون کے مطابق چین میں بچوں کو ابتدائی تعلیم کے دوران افیون کی جنگ سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ چینی بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ برطانوی سلطنت نے ان پر کیا کیا ظلم ڈھائے۔ زینگ یانگون کہتی ہیں کہ چینی نوجوان نسل کو بتایا جاتا ہے کہ یاد رکھو کہ ایک صدی تک چینی قوم کی کیسے تذلیل کی گئی۔

زینگ یانگون کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو چائے چاہیے تھی لیکن وہ اسے چین کے علاوہ کہیں سے ملتی نہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ اٹھارہویں صدی میں چین برطانیہ سے امیر ملک تھا۔اس جنگ کے 14 سال بعد دوسری جنگ ہوئی جو کہ 1856 سے 1860 کے درمیان ہوئی اس کو اینگلو فرینچ وار بھی کہا جاتا ہے جو کہ برطانیہ کے نئے مطالبات کے بعد ہوئی۔ ایک برطانوی فرانسیسی اتحاد اس وقت قائم ہوا جب چین کی افواج کو پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ اس اتحاد کا مقصد بھی چین سے رعایت لینا اور کمرشل فائدے اٹھانا تھا۔ افیونی جنگیں چینی لوگوں کے لیے ایک صدمے کا باعث ہیں اور یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اس کو ذلت سے تعبیر کیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قادر تمیز کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کے تاریخی تجربات ان کی شناخت کو تشکیل دیتے ہیں اور یہی صورتحال چین کے ساتھ ہے کہ جب سے اس نے اصلاحات کی طرف قدم بڑھایا ہے اس کی تمام تر توجہ معیشت پر مرکوز ہے۔

 چالیس سال کے عرصے کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چین کی ترجیح معاشی طرقی سے ہٹ کر قومیت پرستی پر مرکوز ہوئی ہے اور اس کی بنیاد افیونی جنگ کا بیانیہ ہے۔ پروفیسر قادر تمیز کے مطابق دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ چار مئی کی تحریک اور ننجنگ قتل عام مغرب مخالف تحریک اور چینی قومیت پرستی کا نیا چہرہ ہے جس کو شی جن پنگ سامنے لا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی بھی قوم کے لیے ماضی اس طرح کے تلخ تجربات کے منفی جذبات پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا اوریہی وجہ ہے کہ چین آج اسی بیانیے کو دوہراتا نظر آتا ہے۔ اس بیانیے کے سامنے آنے کا مطلب یہی ہے کہ چین مغرب کے خلاف کھل کر سامنے آنا جاتا ہے۔

منگل، 8 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

پاکستانی شہر ملتان میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ، اسرائیلی پرچم نذر آتش

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم ملتان کے ضلعی صدر فخر نسیم صدیقی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے