Breaking News
Home / اخبار / ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار میں مغرب کا کردار

ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار میں مغرب کا کردار

ہندوستان کی تقریباً 204 ملین کی مسلم آبادی، اقلیتوں کے لیے حد  سے زیادہ مخاصمت بھری جگہوںمیں سے ایک  بن جانے کے باوجود حیرت انگیز طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی ترجمان، نوپور شرما حال ہی میں قومی ٹیلی ویژن پر پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصروں کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئیں۔  بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے درمیان، بی جے پی نے ان  ریمارکس  کوانتہا پسندانہ خیالات قرار دیتے ہوئے  خود کو ان سےالگ کر لیا۔

اس واقعہ سے شروع ہونے والی بین الاقوامی بحث کے تناظر میں، انتہائی دائیں بازو کے ڈچ سیاست دان اور قانون ساز گیئرٹ وائلڈرز، جواپنے تارکین وطن اور اسلام مخالف موقف کے لیے مشہور ہیں، نے شرما کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اسے بہادر قرار دیا۔ وائلڈرز کے خیالات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مرکزی دھارے کے میڈیا پر یکساں طور پر پھیلایا گیا۔ بہت سے ممتاز ہندوستانی نیوز چینلز نے وائلڈرز کو ان کے پرائم ٹائم مباحثوں میں ایک پلیٹ فارم دیا جہاں اسے کھل کر اپنے مسلم مخالف خیالات کا اظہار کرنے کی جگہ دی گئی۔

پورے یورپ، امریکہ اور ایشیا میں بیانات کا ایک  ایسا  اژدہام ہے جس  کا لب و لہجہ اسلام دشمن جذبات کےساتھ، مسلم عقیدے کے گرد جا کر بیٹھتا ہے ۔ جس میں اسلام مخالف جذبات تیزی سے انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے لیے تنظیمی اصول کا درجہ اختیارکرتے جا رہے ہیں اور اس کی عالمی توسیع کا ایک ذریعہ بن رہے ہیں۔

جمہوری اقدار کے مخالف، در اندازی کرنے والےاور ثقافتوں کو آلودہ کرنے والے کے طور پر مسلم تشخص کے قیام کا پتہ اس لفظیات سے لگایا جا سکتا ہے جو 9/11 کے بعد کے دور میں عالمی "دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے پس منظر میں تیار کی گئی تھی۔

تیزی سے، مسلمان "حملہ آوروں” سے سرحدوں کو محفوظ بنانے کی منطق بھی جنوبی ایشیا کو برآمد کی جا رہی ہے، اس بنیادی فرق کے ساتھ  کہ ان سرزمینوں پر صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں کو بیرونی قرار دیا جا رہا ہے۔حالیہ تاریخ میں ایک ایسا ہی واقعہ چیزوں کو بہتر تناظر میں رکھ سکتا ہے۔

2019 میں، میانمار کی رہنما، آنگ سان سوچی نے مہاجر مخالف ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ دونوں ممالک اور ان کے متعلقہ خطوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ’’ہجرت ہے… دونوں خطوں نے مسلمانوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بقائے باہمی کے مسئلے کو ابھرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

روہنگیا صدیوں سے میانمار میں مقیم ہیں لیکن انہیں شہریت دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور انکی درجہ بندی غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے طور پر کی جاتی ہے۔ آنگ سان سوچی نے 2017 میں مسلم روہنگیا اقلیت کے خلاف پرتشدد فوجی کریک ڈاؤن کی مذمت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی – جس کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا  خواتین کی عصمت دری کی گئی اور انہیں قتل کیا گیا جس کو اقوام متحدہ نے "درسی کتاب والی نسلی صفائی” کے طور پر بیان کیا۔

اور ہندوستان بھی اسی راستے پر گامزن ہوسکتا ہے، جیسا کہ نسل کشی کے ماہر گریگوری اسٹینٹن نے نوٹ کیا، جس نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ اسٹینٹن نے روانڈا میں ٹوٹسی کی نسل کشی کی پیشین گوئی 1994 میں وقوع پزیر  ہونے سے کئی سال پہلے کی تھی۔

بھارت میں، پچھلے چند سالوں میں اقلیتوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں مسلم مخالف موقف کی بنیاد پر پاپولزم کے نئے محاذ قائم ہوئے ہیں۔ نفرت انگیز ہجوم کے ذریعہ سڑکوں پر کسی بھی نظر آنے والی شناختی  علامات کو نشانہ بنانے سے لے کر اب ایسے قوانین کے ساتھ ا س نفرت کو مضبوط بنایا جا رہا ہے جو مسلمانیت کی عوامی ظاہری شکل کو مجرم قرار دیتی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کو ان کے ملک کی ثقافتی اقدار سے مٹایا جا رہا ہے۔

ہندوستان کی حکمران جماعت کے مرکزی نظریہ ہندوتوا کو اس کے مذہبی کردار کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوتوا، یا ہندو قوم پرستی، شہریت کا ایک گہرا علاقائی اور نسلی خیال ہے۔ اس نظریے کے بانی کے الفاظ استعمال کرنے کے لیے، ’’ہندو ہونے کا مطلب ہے وہ شخص جو اس سرزمین کو، دریائے سندھ سے لے کر سمندر تک، اپنا ملک بلکہ اپنی مقدس سرزمین کے طور پر بھی دیکھتا ہے،‘‘ جس کے مطابق مسلمانوں اور عیسائیوں کو شہریت کے حقیقی دعوے کے بغیر ہمیشہ کے لیے باہر کے لوگوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے بارے میں گہرے عقیدے منصوبہ بند قوانین کے زریعے داخل ہو کئے گئے ہیں، جس پر ہندوستان کی سول سوسائٹی کی طرف سے بہت کم تنقید کی گئی ہے۔ ان میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے کو دی گئی خصوصی حیثیت کی غیر آئینی تنسیخ، ایک امتیازی شہریت کے قانون کا نفاذ جس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، اور اب مسلمانوں کی املاک کے خلاف بلڈوزر لگانے کی تازہ سیاست کے ساتھ یہ  سب  کچھ ہوا۔

مسلم مخالف جذبات پہلے ہی دائیں بازو کی چند راسخ العقیدہ شخصیات کے حلقہ بند نیٹ ورکس سے گزر کر ایک اوسط ہندوستانی کی نفسیات میں داخل ہو چکے ہیں۔

جس آسانی سے ریاست مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کی اس قدر بڑی سول سوسائٹی کی طرف سے تھوڑی سی تنقید کے ساتھ قدم اٹھاتی ہے اس سے ان مضمر روابط کے بارے میں بہت کچھ سمجھا  جا سکتا ہے جو پہلے ہی مسلم ناموں اور جرائم کے ذہنی کھاتوں کے درمیان قائم  ہیں۔

اس کے اثرات ملک میں رونما ہونے والے بڑے سیاسی واقعات میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے مسلم مخالف تشدد کے تناظر میں حزب اختلاف کی کئی جماعتوں کے سربراہان کی طرف سے لکھے گئے مشترکہ خط میں لفظ "مسلم” کا ذکر تک نہیں تھا۔

ہندو انتہا پرستوں کے ان دعووں کی مدد کے لیے، دانشورانہ حمایت کی ضرورت کہاں سے پوری ہوتی ہے ؟ اس کا بڑا زریعہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے مہیا کیا۔ہندو قوم پرستوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا جو بین الاقوامی میڈیا اور اسلاموفوبیا کے سیاسی بیانیے نے پیدا کی تھا۔ اس نے "دہشت گرد ہمارے بیچ میں” جیسے انتباہ پیدا کیے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو جدید دنیا اور جمہوریت کا دشمن گردانتے ہوئےمسلم وجود کو مجرم تصور کرنے کے لیے بنیادی مفروضے فراہم کیے۔

اس تعصب کے لیے استثنیٰ دائیں بازو کے قوم پرستی کے محافظوں کے ذریعے نہیں، بلکہ ہندوستانی لبرلز کے فراہم کردہ تفرق کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جو ساختی مسلم مخالف تشدد کی سنگینی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور اسے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دو طرفہ ثقافتی تصادم کے طور پر مسترد کرتے ہیں۔ .

مودی کی شہرت کو معمول پر لانے میں مغرب کے سرکردہ لیڈروں کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے مودی کے اقتدار میں آتے ہی نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ مودی کو ترقی کے ہیرو کے طور پر سراہتے ہوئے ہندوستانی سیاست میں اس تبدیلی کی بھرپور حمایت کی۔

یہ وہی شخص ہے جس پر گجرات کے قتل عام میں کردار کی وجہ سے امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نےپابندی لگائی گئی تھی، جسے وزیر اعظم بنتے ہی سب آسانی سے بھول گئے تھے۔

مودی کو نہ صرف ٹرمپ جیسے شخص کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی ہے جس نے انہیں ہیوسٹن میں منعقدہ ہاوڈی مودی ریلی میں "معصوم شہریوں کو بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کے خطرے سے بچانے” کے لیے پرعزم "ایک عظیم آدمی اور عظیم رہنما” کہا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ براک اوباما جیسا لیڈر جس نے مودی کے کام کی اخلاقیات کی کھل کر تعریف کی ہے۔

دوسری جانب بورس جانسن نے حال ہی میں بھارت کے دورے پر بلڈوزر بنانے والی ایک کمپنی کا دورہ کیا اور بلڈوزر پر پوز دیتے ہوئے فوٹو شوٹ بھی کیا۔ یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ہندوستانی ریاست نے کھلے عام مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

کئی یورپی ممالک میں بھی مودی کا شاندار استقبال کیا گیا، جس کا اثر ان کے ظلم و ستم کی داستان سنانے کی کوشش کرنے والی مزاحمت کی آوازوں کو کمزور کرنے میں بہت زیادہ  کردار رکھتا ہے۔

آج پھر یہ سامراجیوں کی زبان ہے جس نے مسلمانوں کو ایک غیر ملکی وحشی برادری کے طور پر شناخت زدہ  کرنے اور ان کی محکومیت کو جائز قرار دینے میں سہولت فراہم کی ہے۔

نتیجتاً، ہندو قوم پرستوں میں جو اضطراب پایا جاتا ہے، اس کی جڑیں مسلمانوں کے گرد ایک متضاد اضطراب میں پیوست ہوتی ہیں، جو جزوی طور پر تاریخی اور جزوی طور پر موجودہ حالات کی پیداوار ہے۔ ایک ہندو قوم پرست کے تصور میں، مسلمان بیک وقت ایک تمام طاقتور سامراجی قوت اور اسکے ایک مرض زدہ ،بے وسیلہ بوجھ ہے۔

مغرب میں ہندوستانی ثقافت کی  نمائندگی جس چیز سے ہوتی ہے، اس کا خیال تاہم، بڑی حد تک اونچی ذات کے بیرون ملک  ہندو کا تصور ہے، جن کی اکثریت ہندو قوم پرست نظریہ کو برقرار رکھتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان میں مزاحمتی ثقافتیں اس کی جگہ لے لیں۔

ہندوستانی مسلمان مزاحمت کی ایک سیاسی زبان تیار کر رہے ہیں جو برصغیر کے لیے بالکل نئی ہے۔ یہ صرف ہماری جسمانی بقا کی جنگ نہیں ہے، یہ اس بات کی جنگ بن گئی ہے کہ مسلمانوں کی تعریف کس کو کرنی ہے اور کس کو ان کی کہانیاں لکھنے کا  حق ہے۔ یہ مسلم شناخت کی نوآبادیاتی تعریف کے خلاف جنگ ہے۔

About خاکسار

Check Also

امریکی طلباء کے احتجاج کا دلچسب انداز/یونیورسٹی سربراہ کو فلسطینی پرچم پیش کر دیا

پیٹرز امریکن یونیورسٹی کے متعدد طلباء نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے