Breaking News
Home / اخبار / حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، سابق آئی ایس آئی چیف

حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، سابق آئی ایس آئی چیف

کیا قاتلوں، معصوم شہریوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والوں کا ملک متحمل ہوگا؟ عبداللہ گل کے کئی سوالات

کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات منطقی نتیجے پر پہنچیں گے اور کیا ملک کیلئے مسلسل خطرہ بننے والی تنظیم کو غیر مسلح اور پرامن بنایا جاسکے گا؟ موجو دہ صورتحال میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرگیاہے، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل کہتے ہیں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوجائینگے، ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں جو پاک فوج کے جوانوں، معصوم شہریوں اور آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قاتل ہیں،پاکستان کسی گروہ یا تنظیم کے ذریعے بلیک میل نہیں ہوگا،اس کے ساتھ ہی کچھ اہم سوالات اٹھادیئے، دوسری جانب سانحہ اے پی ایس کے شہداء کے وارثان نے بھی اس معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ تحریک نوجوانان کے سربراہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے اور سیاسی تجزیہ کار عبداللہ حمید گل کے ساتھ شفقنا نیوز نے خصوصی نشست کی۔

 سے گفتگو کے دوران جب ان سے سوال کیاگیا کہ کیا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات منطقی انجام تک پہنچیں گے تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ کالعدم تو تب ہوگی جب اس سے مذاکرات نہیں ہونگے مگر اس سے مذاکرات کئے جارہے ہیں اور جہاں تک ان مذاکرات کے منطقی انجام تک پہنچنے کی بات ہے تو گزشتہ سال اکتوبر میں بھی ان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا مگر وہ بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوگئے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کا بنیادی مطالبہ اب سامنے آیا ہے کہ وہ فاٹا انضمام کے عمل کو واپس کیا جائے، اس کی سابقہ حیثیت یعنی سرزمین بے آئین کے طور پر اسکی آزاد حیثیت برقرار رکھی جائے، اس معاملے پر فاٹا کے اندر بھی ایک فضا موجود ہے اور اس لحاظ سے اس موقف کو کسی حد تک عوامی تعاون حاصل ہے۔

ٹی ٹی پی کی کارروائیاں دراصل 9/11 کے بعد شروع ہوتی ہے جب امریکہ اور دیگر طاغوتی طاقتیں افغانستان پر حملہ آور ہوتی ہیں تو یہاں جب ڈماڈولہ کا واقعہ ہوتا ہے اور 82حفاظ کرام ایک ڈورن حملے میں مارے جاتے ہیں تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ڈرون حملہ ہم نے کیا حالانکہ یہ حملہ امریکہ نے کیا تھا۔ اس کے بعد اکتوبر 2006ء کو پہلا خود کش حملہ کوہاٹ پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوتا ہے اور پھر نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔

اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پھر اگلے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں ان کیخلاف آپریشنز کا سلسلہ شروع کیاگیا، ملٹری آپریشنز سے پہلے بعض افسران جن کے کچھ سوالات یا تحفظات تھے وہ بھی سنے گئے مگر کچھ وقت بعد ٹی ٹی پی کی طرف سے دہشت گرد حملوں میں شدت آگئی، پاک فوج کے چار جرنیل، متعدد افسر و سپاہی، عام پاکستانی جب ان حملوں میں شہید ہوئے، صحافی، وکلا برادری، خواتین، بچے، بوڑھے، جوان، طلباء خصوصاً اے پی ایس کا دلخراش واقعہ ہوگیا توسیکورٹی فورسز کا ایک مزاج بنا اور انہوں نے خصوصاً جنرل راحیل شریف نے پہلی مرتبہ کاکول اکیڈمی میں جاکر کہاکہ ہمیں اندرونی جنگ کو دیکھنا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں خطرات اندرونی طور پر ہیں۔

سانحہ اے پی ایس ایسا دلخراش اور واحد واقعہ تھا کہ اس کے بعد اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھے، 20 نکات پر نیشنل ایکشن پلان مرتب ہوا، نیشنل ایکشن پلان پر پاک فوج کے متعلقہ تمام نکات پر عملدرآمد ہوا مگر بدقسمتی سے سیاسی لحاظ کیساتھ سول انتظامیہ کے حوالے سے وضع کردہ اصولوں کو مکمل نہیں کیاجاسکا البتہ ٹی ٹی پی سمیت دہشت گردوں کیخلاف یہ جنگ چلتی رہی اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ 96 فیصد کامیابی حاصل کرلی گئی ہے اور اس کے بعد بھی معاملات معمول کے مطابق آگے بڑھے مگر جیسے ہی افغانستان کے اندر اگست 2021ء میں نئی حکومت یعنی طالبان برسر اقتدار آتے ہیں اس کے بعد پھر ان لوگوں (ٹی ٹی پی) کی توجہ پاکستان کی جانب ہوگئی۔

اس پر جب سوال ہوا کہ کیا افغان طالبان کی حکومت کے سبب انہیں شہ ملی تو عبداللہ حمید گل نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ میں سمجھتا ہوں افغان طالبان کا اس حوالے سے کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی وہ پاکستان مخالف ہیں البتہ وہ قوتیں جو اپنی شکست کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتی ہیں اور جو افغانستان میں انہیں شکست ہوئی اسکاالزام پاکستان پر یاپھر سزا کے طور پر پاکستان کودینا چاہتی ہیں تو اس لحاظ سے یہ فضا بنتی گئی اور اس حد تک فضا قائم ہوئی کہ پاکستان پر پھر دہشت گردی کے حملے شروع ہوئے جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھا دیا اور آج بھی ہمارے افواج کے کپتان، سپاہی، جوان شہید ہورہے ہیں لیکن اب جہاں تک سیکورٹی ڈائیلاگ کی بات ہے پہلے افواج کو تحفظات تھے مگر پھر سانحہ اے پی ایس کے بعد انہوں نے اپنی جانوں کے قیمتی نذرانے پیش کئے۔

اب جن دہشت گردوں نے ہمارے معصوم لوگوں کے گلے کاٹے ہیں، جنہوں نے ہمارے معصوم لوگوں کے سروں سے فٹ بال کھیلاہے، ان کے جسموں کی بے حرمتی کی گئی، اب ان مذاکرات پر اندرون ملک بھی ایک دباؤ موجودہے، کیونکہ گزشتہ دور حکومت میں آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہوتے ہیں مگر وہ کیوں ایوان میں نہ آسکے؟ کیونکہ کسی وقت میں انہوں نے بھی ان کی حمایت کی تھی، اسی دباؤ کے سبب ہی گزشتہ اکتوبر میں ہونیوالے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اب جو حالات چل رہے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی منطقی نتیجے تک پہنچیں گے کیونکہ ان کے مطالبات بہت ہیں اور اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو پھر کل وہ الیکشن میں آئینگے اور جب وہ الیکشن میں آنا چاہیں گے تو آپ انہیں روکیں گے اس پر وہ پھر ہتھیار اٹھالیں گے اگر نہیں روکیں گے تو وہ الیکشن کے بعد اسمبلیوں میں آجائینگے اور وہ اسمبلیوں میں آجاتے ہیں تو کیا ہمارے ادارے ان کو سیلوٹ کرنے کیلئے تیار ہونگے؟ یہ بہت بڑا فرق اور سوال ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کی جو کامیابیا ں تھیں وہ یقیناً اپنی جگہ کہ بڑی قربانیوں کے بعد فاٹا پر نہ صرف مکمل کنٹرول سنبھالا بلکہ انضمام بھی کیا مگر اس وقت افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی موجود تھے تو بہت سے لوگ سرحد آر پار نہیں جاسکتے تھے مگر اب جو معاملہ ہے وہ دوسرا ہوجائیگا، وہ چوٹیاں جو ہم نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کی ہیں کیا اسے رائیگاں کرینگے؟کیا افغانستان میں ایسا سیکورٹی کا نظام موجود ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو روک سکے، فی الحال ایسا کچھ بھی نہیں ہے، اس لئے میری نظر میں یہ ایک مشکل عمل ہے اور اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل پائے گا،ان سے سوال کیاگیا کہ طالبان تو فاٹا انضمام کے عمل کو واپس کرنے کا بنیادی مطالبہ لے کر مذاکرات کررہے ہیں کیا اس پر بات ہوسکتی ہے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے کہاکہ کیا دباؤ میں فیصلے کئے جائینگے؟

ایسا نہیں ہوسکتا، ابھی سے لوگوں کو بھتہ پرچیاں شروع ہوگئی ہیں، پشاور سمیت دیگر جگہوں پرکاروباری لوگوں کو پرچیاں آنا شروع ہوگئی ہیں یہ انتہائی تشویشناک بات ہے پہلے تو امریکہ تھا اس کے مفادات تھے آج اس کے مفادات نہیں ہیں، ہمارے لئے یہ مشکل ترین فیصلہ ہوگا اور ظاہر ہے کہ آپ اس طرح کی تنظیموں کی بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ نہ ختم ہونیوالا سلسلہ ہوگا جو کہ مجھے نہیں لگتا ہوگا۔

دوسری جانب گزشتہ روز پشاور میں ایک نیوز کانفرنس میں سانحہ اے پی ایس کے شہداء کے ورثاء نے بھی ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انتظار حسین

About خاکسار

Check Also

اقتصادی جنگ میں امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے، ایران

اقوام متحدہ میں ایرانی نمائندے نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایرانی عوام کے خلاف …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے