Breaking News
Home / اخبار / تاریک توانائی: کائنات کا سب سے بڑا اسرار (حصہ دوئم)

تاریک توانائی: کائنات کا سب سے بڑا اسرار (حصہ دوئم)

تاریک مادے کو سمجھنے کی کوشش نے،اگلے دو عشروں کے لیے،علم فلکیات کے بارے میں  کافی علمی مواد مہیا کر دیا۔ہو سکتا ہےکہ ماہرین فلکیات  کو یہ علم نہ ہو کہ تاریک مادہ ہے کیا، لیکن اس کی موجودگی کے قیاس نے،انہیں ایک  دائمی سوال کی کھوج  کے لیے نیا راستہ مہیا کردیا۔اور وہ سوال  ہے:کائنات کا انجام کیا ہے ؟اس  بات  کا انہیں پہلے سے علم تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ 1929 میں،  ماہر فلکیات،  ایڈون ہبل  نےدریافت  کیا کہ  ہم سے ایک  فاصلے پر موجود  کہکشائیں ، ہم سےدور ہوتی  جارہی ہیں اور جتنا وہ دور ہوتی ہیں،اسی قدر وہ  سکڑتی دکھائی دیتی  ہیں۔

یہ ایک  انقلاب آفرین خیال تھا۔ سیدھی اورہمیشہ سے ناقابل  تبدیل  ساکن زندگی کی حامل کائنات  ، جیسا کہ اسے  خیال کیا جاتا  تھا،کے بجائے، اب ہمارے پاس یہ  سچائی موجود ہےکہ یہ زمان میں زندہ اور متحرک  ہے، کسی فلم کی طرح۔پھیلاؤ کی اس  فلم کوپیچھے کی طرف چلائیں، تو کائنات،  آخر کار، لامتناہی ٹھوس کثافت اور رتوانائی کی حالت میں پہنچ جائےگی،ایسی حالت جسے سائنسدان بگ بینگ کہتے ہیں۔لیکن اگر  ہم اسے  فاسٹ فارورڈ کریں تو ؟ کہانی  کیسےختم ہو گی ؟

کائنات مادےسے بھری ہوئی ہےاورمادہ،دوسرے مادے کوکشش ثقل  کےزریعے کشش کرتا ہے۔ماہرین فلکیات دلیل دیتے ہیں کہ اس تمام  تر مادے کی  آپس میں  باہمی کشش کو، کائنات کے پھیلاؤ کو سست کر دینا  چاہیے۔ لیکن  وہ  یہ  نہیں جانتے کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ کیا کشش ثقل  کے اثرات اس قدر طاقتور ہو جائیں گےکائنات  ایک خاص  فاصلےتک پھیلے، رک جائے اورپھر اپنے آپ کو ریورس کر لے، جیساکہ کسی  گیند کو  ہوا میں اچھالا  جاتا ہے؟( یہ ایک متضاد خیال ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو اس کو پھیلانے کا سبب بنی –بگ بینگ- بگ بینگ  کیسے کسی عامل  کے بغیر وقوع پزیر ہوا ؟ وہ ڈیٹونیٹر کہا ں ہےجس نے دھماکہ کیا ؟

اور اگر اس دھماکے کی شدت اتنی تھی کہ اسے کروڑوں اربوں سالوں سے پھیلائے جارہی ہے تو کون سا نقطہ ہے جہاں پھیلاؤ رک جائے گا اور تب کشش کو خیال آئے گا کہ وہ خواب غفلت سےبیدار ہو کر اپنا فریضہ سنبھال لےاور سکڑاؤ کا عمل شروع ہو جائے  ، ،کیا کائنات کا یہ محولہ بالا تصور،  مادےکو ایک باشعور عامل سمجھتا ہے ؟ اگر نہیں سمجھتا تو کیا وہ کسی  اور خارجی  عامل کو اس پھیلاؤ اور سکڑاؤ کی حدود مقرر کرنے والا عنصر سمجھتا ہے ؟ اگر ایسا  ہے تو  ہم بدقسمتی سے ایساتصور کرنے سے سائنسی حدود سےباہر نکل  جائیں گےاور اس سے آگے کا کام جعلی صوفیوں اور نام نہادپادریوں  کے حوالے کر دیں گے جو  اس تصور کو گلے لگائیں گے اور یہاں  پر ایک مفروضہ ،پر اسرارہستی کو نام نہاد سائینسی جواز مہیا کرتےہوئے اس تمام عمل کا زمہ دار قرار دیں گے۔

دوسرا نقطہ ا س میں یہ پنہاں ہے کہ ہماری کائنات وہاں تک ہے جہاں تک وہ  ہمارے مشاہدے میں آئی ہے۔  مفروضہ طور پر ہماری کائنات سے باہر دوسری  کائناتیں بھی ممکنہ دجود رکھتی ہیں  ۔ پھیلاؤ اور سکڑاؤ کی بنیاد پر کائنات کے  آغاز اور انجام کے نظریے کو اگر بنیاد  بنایا جائے تو ممکن ہے کہ ایک یا ایک  سے زیادہ دوسری کائناتیں خارجی طور پر،  ہماری  کائنات  کو اپنی کشش کی وجہ سے اپنی جانب کھینچ رہی ہیں اور اس طرح ہماری کائنات کی حدود کا  پھیلاؤ اس باہری  کشش کی وجہ سے ہے۔

بلاشبہ،ہم سائنس کو اس  طرح کےغیر سائنسی نظریات میں،اس کےمذہبی  اور  نیم مذہبی پیشہ ورانہ  استعمال  کا زمہ دار قرار نہیں دےسکتے، لیکن سائنسی نظریات کےنتائج  کو درست فلسفیانہ فکر کے ساتھ جوڑ  کر دیکھنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے)۔یا  پھریہ اس قدر کم ہو گی (ثقل کی  قوت) کہ کائنات اس  کی گرفت سےبچ جائے گی اور اس کےپھیلنے  کا عمل  کبھی  بھی نہیں رک  پائے گا، جیسا  کہ زمین کے ماحول کو چھوڑتا ہواراکٹ؟ یا  ہم ایک  نفاست سے متوازن بنائی گئی دنیامیں  رہتے ہیں، جو افسانوی  گولڈی لاکس کی طرح معتدل شرح پھیلاؤ کے ساتھ نہ تو زیادہ تیز ہے اورنہ ہی زیادہ آہستہ-اور اس طرح کائنا ت آخر کار ایک  مجازی ساکن حالت میں  آ جائے گی ؟

تاریک  مادے کے وجود ، اور قانون ثقل کی آفاقیت کو تسلیم کرتے ہوئے، فلکیاتی طبیعات دانوں نے دواصطلاحات وضع کیں جوکائنات کے مستقبل کا تعین کریں گی : ان میں  سے ایک ان لوگوں نے وضع کی جن کی رہنمائی ساؤل پیری مٹر کر رہے ہیں اور جن کا تعلق  ،برکلے نیشنل لیبارٹری سےہے، اور دوسرےبرائن شمٹ ہیں جن کا تعلق آسٹریلیا کی نیشنل  یونیورسٹی سے ہے۔ 1990،کے پورے عشرےکےدوران،حریف ٹیموں نے ،ان غیرمعمولی روشن، دور درازکے، مختصر عرصے تک وجود رکنے والےاجسام کو، کائنات کی نشوونما  کے پیمانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، کئی سپر نووا یا پھٹنے والے  ستاروں کا قریبی تجزیہ  کیا۔وہ یہ جانتے تھے کہ،اگر  کائنات کے  پھیلاؤ کی شرح کو مستقل تصور کیا جائے،توکائنات  کے مختلف  مقامات پر سپرنووا کو کس قدر روشن نظر آناچاہیے۔اس بات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہ سپر نووا حقیقت میں کس قدر روشن دکھائی دیے ہیں( اور کس قدر ان کو روشن ہونا چاہیےتھا)، فلکیات دان ،اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ کائنات کا پھیلاؤ کس قدر سست ہوتا جا رہا ہے ۔

لیکن فلکیات دانوں کو یہ جان کر حیرانی ہوئی، جب وہ اس قدر دور تک گئے جسے کائنات کا آدھا راستہ کہا جا سکتا ہے، یعنی  چھ یا سات ارب نوری سال کے فاصلے کی دوری پرانہیں نظر آیا  کہ سپرنووا یادہ روشن نہیں ہیں-اور اس لیے وہ اس سے زیادہ نزدیک ہیں جتنے کی توقع کی جار ہی تھی۔وہ کم روشن تھے، اس کا مطلب ہےزیادہ  دور۔ ( اس کا مطلب یہ ہے کہ سپرنووا کی روشنی کی شدت ان کے فاصلے کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہےاور اس طرح ان کےقریب یا دور ہونےکا پتہ چلتاہے او ر اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہےکہ اس وقت کائنات کےپھیلنے یا سکڑنے کی رفتار کیا ہے)۔اس سےدونوں  ٹیموں نےیہ نتیجہ اخذ  کیا کہ کائنات کا پھیلاؤ سست نہیں ہورہا، یہ  تیز رفتار ہو رہا ہے۔

اس دریافت کےمضمرات یادگارتھے؛ اس کا مطلب یہ ہوا کہ  کائنات کے ارتقامیں، ثقل  غالب  عنصر کا  کردار نہیں رکھتا۔ یہ کوئی۔۔۔اور چیز  ہے۔ دونوں ٹیموں نے اپنی تحقیقات کا اعلان 1998 میں کیا۔ ٹرنر نے اس ” کوئی اور  چیز” کو اک نک نیم دیا: تاریک مادہ۔ اس وقت سے فلکیات دان ،زمیں کے آخری کونے تک اس تاریک توانائی کی کھوج میں  لگے ہوئے ہیں۔

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے