Breaking News
Home / اخبار / اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا

اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا

وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 3 ماہ بڑے اہم ہیں، ان میں سے ایک تو گزر گیا، باقی رہ گئے 60 دن، ان میں بھی وہ سرخرو ہوںگے۔ یہ بات انہوں نے اردو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ شیخ رشید نے تمام قیاس آرائیوں کے باوجود دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی حکومت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے 5 سال پورے کرینگے۔ سب اچھا ہی ہوگا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہمجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ آج بھی ایک ہی پیج پر قائم ہیں۔ آج بھی اس سلسلے میں ایک ملاقات ہوئی ہے۔ ملک میں افواہیں اڑائی جا رہی ہیں، تاہم نہ تو ایمرجنسی لگ رہی ہے اور نہ ہی کوئی صدارتی نظام آ رہا ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ کسی کو عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا شوق ہے تو اسے پورا کرلے، اس کیلئے بندے تو انہیں ہی لانے پڑیں گے۔ پیپلز پارٹی 27 فروری اور مسلم لیگ ن 23 مارچ کو اسلام آباد آ رہی ہے۔ حکومت دونوں جماعتوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ اپوزیشن قانون ہاتھ میں نہیں لے گی۔ تاہم اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو قانون قانون ان کو ہاتھ میں لے گا۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے عدالت میں میڈیکل رپورٹس جمع کروانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بدنصیب ہے، اپنے ملک ہی نہیں آنا چاہتا۔ دنیا کے رہنمائوں نے اتنی کاوشیں کیں اپنے ملک جانے کی۔ اپنے ملک کی تو جیل بھی سسرال ہوتی ہے۔

شیخ رشیدکی بات سے اتفاق کیے بغیر بھی چارہ نہیں کیونکہ  اپوزیشن جماعتیں کچھ کرنے جوگی نہیں۔ ایک دن انہیں امید بندھتی ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی آپس میں نہیں بن رہی لیکن ساتھ ہی کوئی اہم ترین قانون سازی کی باری آ جاتی ہے جس میں حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت پڑ جاتی ہے حکومت کا ساتھ دے کر یہ قانون سازی کامیاب کروانے کی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ گذشتہ ماہ دیکھنے میں آیا جب حکومت نے پہلے تو قومی اسمبلی سے سٹیٹ بینک ترمیم ایکٹ منظور کروایا اور پھر سینیٹ سے اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود یہ ایکٹ پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ قومی اسمبلی کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہاں تو حکومت کی اکثریت ہی ہوتی ہے، تبھی تو وہ حکومت ہے۔ لیکن سینیٹ میں 3 ووٹوں کی عددی برتری کے باوجود اپوزیشن کا شکست کھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں تو اپوزیشن کے ساتھ بھی نہیں ہے۔

یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ نہ تو خود اپوزیشن میں اور نہ اپوزیشن کے ساتھ ہے۔ ہر بار یہ حکومت کی قانون سازی میں اثر انداز بھی ہوتی ہے اور عام حالات میں بھی حکومتی اتحادی محض اس لئے حکومتی اتحادی ہیں کہ ان کو مارچنگ آرڈرز نہیں ملے۔ وگرنہ خوش تو عمران خان سے وہ قطعاً نہیں۔ دیکھنا ہے کہ  اس بار لانگ مارچ محض ضد ہے یا واقعی انقلاب براستہ موٹروے آ رہا ہے؟ اس لانگ مارچ کا فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی یا مولانا کے دھرنے کی طرح فائدہ کوئی اور لے جائے گا؟ ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی مارچ کی 23 کو رمضان سے ایک ہفتہ قبل مولانا اور نون لیگ لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں اسی دعوے کے ساتھ کہ خان صاحب گھر کی راہ لیں گے۔ ورنہ؟ اس ورنہ کے آگے کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

تاہم، تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے ان کا یہ دعویٰ کہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نواز شریف اس لئے بنے ہوئے ہیں کہ وہ شہباز شریف پر اعتبار کے لئے تیار نہیں اور دراصل مریم نواز کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے کوشاں ہیں، شاید اپوزیشن پر ایک ایسی تہمت ہے کہ جسے دھونے کا کوئی ذریعہ تو نہیں۔ لیکن یہاں مزمل سہروردی کا نواز شریف سے ملاقات کے بعد لکھا گیا کالم زیادہ قرینِ قیاس دکھائی دیتا ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف کے مطابق ان کے سامنے اقتدار اور ووٹ بینک میں سے کسی ایک چیز کو چننے کی آپشن ہے اور “میں عوام کو جوابدہ ہوں۔ اقتدار اور ووٹ بینک میں جب بھی فیصلہ کرنے کا وقت آیا ہے تو میں نے ووٹ بینک کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ ایسا اقتدار نہیں چاہیے جو ووٹ بینک کی قیمت پر ملے۔ ووٹ بینک اقتدار دے سکتا ہے لیکن کتنا ہی مضبوط اقتدار ہو ووٹ بینک نہیں دے سکتا۔ اس لیے عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔جو بھی کریں عوام کے اعتماد کے مطابق ہی کریں گے۔”

About خاکسار

Check Also

ایران کا فلسطینی مزاحمت کے مختلف ذرائع کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور

ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری نے اسماعیل ہنیہ سے ملاقات میں کہا …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے