Breaking News
Home / اخبار / ابراہیم رئیسی کا دورہ ماسکو: کیا ایران جدید اسلحہ خرید سکتا ہے؟

ابراہیم رئیسی کا دورہ ماسکو: کیا ایران جدید اسلحہ خرید سکتا ہے؟

جب ایران کے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی رواں مہینے روس کا دورہ کریں گے تو یہ توقع کی جارہی ہے کہ دونوں فطرتی اتحادیوں کے مابین دو طرفہ تعلقات مزید گہرے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طویل عرصے سے متوقع دفاعی ڈیل بھی طے پائے جانے کا امکان ہے۔ اس دورے کے دوران تہران اور ماسکو کے مابین 20 سالہ 10 بلین ڈالر کا دفاعی اور سیکورٹی معاہدہ طے پانے کا امکان ہے جس میں سٹیلائٹ کی خریداری بھی شامل ہوگی۔ یہ نیا معاہدہ 2001 میں دستخط ہونے والے معاہدے کی ہی توسیع ہے جس کی ہر پانچ سال بعد خود بخود تجدید ہوجاتی ہے۔ تاہم ایران 2020 میں اس معاہدے میں مزید توسیع کا متمنی تھا اور اس معاہدے کی تحریر میں تبدیلیوں کا خواہاں تھا۔

ایران اور چین کے مابین اسی طرح کا ایک 25 سالہ تزویراتی معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاہدہ سازشی نظریات کی نظر ہوگیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد اس طرح کے مفروضات بھی سامنے آئے کہ بہت سارے ایرانی جزائر چین کے حق میں ایران سے الگ ہوگئے ہیں اور ایران کے ان حصوں میں چین اپنی فوج تعینات کررہا ہے۔ اسی طرح ویانا مذاکرات میں ایٹمی معاہدے کی تجدید کے لیے بھی اسی طرح کی سازشی تھیوریاں سامنے آئیں جن میں سے بعد یہ بھی تھیں کہ امریکہ ایران کی معیشت پر سے عائد پابندیاں ہٹانے پر متفق ہے۔ تاہم اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ایران اور امریکہ اپنی اپنی شرائط پر اڑ چکے ہیں اور ایران دوبارہ امریکہ پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں جبکہ امریکہ ایران کو کسی قسم کی یقین دہانی کرانے پہ تیار نہیں ہے اور نہ ہی عملی طور پر کچھ کرنے کو تیار ہے۔ اس لیے تہران کے پاس نئے معاشی مواقع کے لیے روس ہی بہترین آپشن ہے جس کے ساتھ اس کا ایک بہترین فریم ورک پہلے سے موجود ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ رئیسی کے دورہ روس کا مقصد درحقیقت ملٹری ٹیکنیکل کوآپریشن میں پیش رفت ہے ۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحے کی فروخت پر سے پابندیوں کے خاتمے کے بعد تہران نے دعوٰی کیا ہے کہ اس نے ماسکو کی دفاعی انڈسٹری سے جدید اسلحہ خریدا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین پیش رفت کے پیچھے جنرل سٹاف کے سربراہ جنرل باقری کا ہاتھ ہے جنہوں نے خزاں مین روس کا دورہ کیا تھا۔ تاہم جنرل باقری نے اس دورے کے دوران ایک خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ماسکو اور تہران کے مابین تعلقات اگرچہ مضبوط ہیں تاہم ابھی تک وہ اس مرحلے تک نہیں پہنچے کہ ایک فوجی بلاک تشکیل دیا جاسکے۔

فضائی تحفظ

تہران ممکنہ طور پر روس سے کثیر المقاصد سپر ایس یو 35 جنگی طیارے خریدنے کی توقع رکھتا ہے ۔ ایران کی جانب سے اس بات کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس نے تین درجن کے قریب پائلٹس کو ایس یو 35 ایس ای اڑانے کی تربیت کے لیے منتخب کر لیا ہے۔ اگر تہران اور ماسکو جنوری میں کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو اس پر فوری طور پر کام شروع ہوجائے گا۔  اس کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین دو درجن مگ 29 اور 25 ایس یو 25 ایم کے طیاروں کی ریپئرنگ اور ان کو جدید بنانے کے حوالے سے بھی بات چیت کا امکان ہے ۔ یہ طیارے ایران ائیر فورس کے استعمال میں ہیں۔

اسی طرح اس بات کی توقع بھی موجود ہے کہ ایران روس سے ایس 400 میزائل نظام کی درخواست کر سکتا ہے۔ اگرچہ دوسری جانب اسرائیل اور روس کے مابین ایک شریفانہ معاہدہ موجود ہے کہ وہ ناقابل اعتبار ریاستوں کو جدید اسلحہ فروخت نہیں کریں گے اس لیے یہ ممکن ہے کہ روس ایران کو واضح طور پر ناں بھی کہہ دے یہی وجہ ہے کہ تجزیہ نگار اس ملاقات کو روس اور ایران کے مابین تعلقات اور اعتبار کے درجے کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ ایران کو اس وقت اپنی فضائی حدود کو محفوظ بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسرائیل مسلسل ایران کو فوجی آپریشن کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

ایندھن کے ذریعے ادائیگی

ماہرین کو شبہ ہے کہ مغربی پابندیوں کے سبب ایران روس کو دفاعی معاہدوں میں رقم کی مدد میں تیل کے ذریعے ادائیگیاں کرے گا ۔ اس حوالے سے اسلام ری پبلک آف ایران ممکنہ طور پر دفاعی معاہدے اور اسلحے کے حصول کے لیے بارٹر نظام پر تکیہ کرے یعنی فوجی مصنوعات کے بدلے تیل سے ادائیگی۔ امسال بحیرہ کیسپین کے ایرانی سیکٹرمیں چالوس گیس فیلڈ کی دریافت ہوئی جو کہ ایرانی اندازے کے مطابق یوروپین ممالک کی 20 فیصد توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے  کے حوالے سے مٖغربی ماہرین یہ رائے قائم کرچکے ہیں کہ ایران بہت جلد چالوس سے گیس کو چینی اور روسی بزنس کمیونٹی سے معاہدے کے تحت حوالے کر دے گا اور اس کے بدلے میں ان ممالک سے فوجی اور سیاسی حمایت حاصل کریں گے۔

روسی ماہرین اس طرح کے بارٹر معاہدے کے بارے میں محتاط ہونے کی رائے دیتے ہیں۔ بظاہر تہران اور ماسکو کے ماہرین لیول پر اس موضوع پر بات چیت چل رہی ہے۔ تاہم روس کے سنٹر برائے سٹریٹیجک اور ٹیکنالوجیز تجزیہ نگاری کے ڈائریکٹر رلسن پاخو کے مطابق روس پر یہ سوال آسان نہیں ہوگا کیونکہ ایران پابندیوں کی ذد میں ہے اور تہران معاشی مسائل سےدوچار ہے ۔ اور یقینی طور پر ایران ہم سے اسلحے میں رعائت طلب کرے گا لیکن ماسکو ایران کو صرف قرض دے سکتا ہے۔ اگر ہم وینیزویلا، اردن اور بیلارس کو قرض دے سکتے ہیں تو ایران کو کیوں نہیں؟

منگل، 4 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے