Breaking News
Home / اخبار / کیا معاشی عدم استحکام کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے؟

کیا معاشی عدم استحکام کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے؟

دنیا کے سب ممالک جہاں حکومت کی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام، دہشتگردی ہے، وہاں کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ حالانکہ عراق اور شام جیسے ممالک جہاں پرامن حالات میں قومی اور انفرادی سطح پر اقتصادی حالت بہتر تھے، وہاں بھی جنگ، دہشتگردی اور ناامیدی نے انہیں آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔ اس کے برعکس جہاں حکومتیں اور ادارے آئین اور قانون کے تابع ہیں، چاہے وہاں پر جمہوری حکومت ہے یا نہیں مگر سیاسی استحکام ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں امن اور سکون ہے تو سرمایہ کار بنا خوف و خطر اپنا سرمایہ لگاتا ہے، معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور خوشحالی آجاتی ہے۔

آج پاکستان کی معیشت سیاسی بدامنی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اپنے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو سیاسی عدم استحکام کے خطرے کی وجہ سے اب بھی شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ غیر مستحکم سیاسی نظام ایک خطرہ ہے جو کسی ملک میں نظم ونسق اور قانون کے نفاذ کو روکتا ہے۔ یہ بے قاعدہ سیاسی تبادلوں کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی پر عمل درآمد اور کمزور ادارہ جاتی ڈھانچہ ٹوٹ جاتا ہے، سماجی رویے کی نافرمانی جو معاشرے کے فیصلہ سازی کے پیرامیٹرز کو متاثر کرتی ہے یا تبدیل کرتی ہے۔

نتیجتاً اس سے معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور اس طرح ملک میں معاشی ترقی میں کمی آتی ہے۔ اس لیے ایک خوشحال اور ترقی پسند معیشت کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ورنہ ملک معاشی بحران کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی کا سامنا کرنے والے ممالک سیاسی بدامنی کی وجہ سے حکومتی تبادلوں کے بے قاعدہ بہاؤ کا شکار ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاشی بحالی صرف سیاسی اتفاق رائے سے حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن عمران خان ہمیشہ کی طرح اس بات پر بضد ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے۔ ”پاکستان کو ممکنہ مالیاتی دیوالیہ دور سے باہر نکالنے کے لیے ہر طرف بیلٹ سخت کرنے پر قومی اتفاق رائے سے کم کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن خان کے عوامی بیانیے کی وجہ سے ملک میں تلخ اور بعض اوقات پرتشدد پولرائزیشن کی وجہ سے اس کے امکانات تاریک ہیں۔”وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ خان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن وہ ہمیں حکم نہیں دے سکتے۔ ہمیں انتخابات کی تاریخوں کے اعلان میں بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار کہا تھا، ”پاکستان کا مستقبل، استحکام اور سلامتی اس کے عوام کو بااختیار بنانے اور سیاسی اداروں کی تعمیر میں مضمر ہے۔

پاکستانی سیاست کے دونوں دھڑے اس وقت ملکی معاشی ابتری کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاکستانی عوام کے سامنے مسیحا کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن حقیقت بہر حال یہی ہے کہ ملک کو اس وقت جن حالات اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان کا تعلق گزشتہ ساٹھ ستر برس کے دوران اختیار کی گئی پالیسیوں سے ہے، جو اب ملکی ضرورتیں پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی موجودہ سیاسی فضا میں یہ جاننے کی کوئی ٹھوس کوشش بھی نہیں کی جا سکی کہ گزشتہ چھے سات دہائیوں کے دوران ملکی معیشت کو کن بیساکھیوں کے سہارے چلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

بادی النظر میں پاکستان کو جن مسائل اور صورت حال کا سامنا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ملک کو جنگی معیشت کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ اب چونکہ علاقے میں کوئی ایسی جنگ برپا نہیں ہے جس میں پاکستان کی ضرورت محسوس ہو۔ اس علاقے کے عالمی اسٹریٹیجک منصوبوں میں چونکہ پاکستان کا کوئی متعین کردار نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ وسائل محدود ہوچکے ہیں جن کی بنیاد پر ملکی ’جنگی معیشت‘ کامیابی سے متحرک رہی تھی اور دیگر شعبوں کے معاملات میں بھی کسی نہ کسی طور پاکستان کے عسکری کردار کی بدولت سہولت بہم پہنچتی رہی۔ ان میں آئی ایم ایف کے ذریعے وسائل کی فراہمی اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں تک رسائی کے معاملات سر فہرست ہیں۔

اس تنازعہ میں یہ سادہ سی سچائی سمجھنے سے گریز کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کو اب اسٹریٹیجک حوالے سے وہ اہمیت حاصل نہیں ہے کہ امریکہ ایک بار پھر پاکستان کی ’جنگی معیشت‘ کو سہارا دینے کی کوشش کرے گا۔ جنگی خدمات فراہم کرنے کی صنعت کمزور ہونے کے دوران پاک چین اقتصادی معاہدہ کی صورت میں پاکستان کے پاس ملکی معیشت کو جنگی سے خود انحصاری کی طرف موڑنے کا اہم موقع ضرور موجود تھا لیکن ملکی عسکری اداروں نے جمہوری نظام پر دسترس قائم رکھنے کے لئے اس منصوبہ کے فوائد کو محدود کر دیا۔ گزشتہ چند برس کے دوران پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر ضروری اضافہ اور سی پیک کے حوالے سے پیدا ہونے والی الجھنوں نے ملک کے لئے نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔

ملکی نظام میں سیاسی و عسکری حلقوں کی کھینچا تانی کی وجہ سے ملکی قیادت سی پیک کی فنانسنگ میں نجی چینی بنکوں کے کردار اور ان کے ذریعے حاصل ہونے والے مالی وسائل سے پیدا ہونے والے مسائل کا اندازہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا کوئی منصوبہ بنانے میں بھی ناکام رہی۔ ایک ایسے وقت میں جب قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ اور بڑھتے ہوئے معاشی چیلنجز کے سبب ملک میں ہم آہنگی، اشتراک عمل اور تعاون کی فضا پیدا کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، غیر آئینی حرکتوں اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے بحران، انتشار اور داخلی تنازعہ کی افسوسناک صورت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

About خاکسار

Check Also

امریکی طلباء کے احتجاج کا دلچسب انداز/یونیورسٹی سربراہ کو فلسطینی پرچم پیش کر دیا

پیٹرز امریکن یونیورسٹی کے متعدد طلباء نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے