Breaking News
Home / اخبار / کیا تصادم ناگزیر ہے؟

کیا تصادم ناگزیر ہے؟

وزارت داخلہ نے تحریک انصاف کو جلسے کے لیے دو مقامات کا آپشن دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت داخلہ پی ٹی آئی کو ایف نائن پارک اور پریڈ گراونڈ پر جلسے کی اجازت دینے پر غور کررہی ہے۔ وزارت داخلہ کے مجوزہ پلان کے مطابق پی ٹی آئی دونوں مقامات میں سے جہاں چاہے جلسہ کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے پی ٹی آئی سے ‘آئیں اور جلسہ کرکے جائیں’ کی ضمانت لی جائے گی ۔ مجوزہ پلان کے تحت جلسے کے لیے کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی شرط بھی شامل ہو گی، اسلام آباد انتظامیہ سے معاملات میں تعاون کی شرط بھی شامل ہو گی ۔ واضح رہےکہ سپریم کورٹ نے اسلام آباد انتظامیہ کو مجوزہ پلان سمیت عدالت میں طلب کر رکھا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کا کبھی یہ موقف ہوتا تھا کہ حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کرنا ان کا بنیادی حق ہے مگر فیصلے سٹرکوں پر نہیں ہوتے، شاہراہیں بلاک کرنے سے عوام کو تکلیف ہوگی۔ یہ عمران خان ہی تھے جو ملک کے اچھے امیج کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں تو صرف وزیراعظم آفس سے گھر اور گھر سے آفس آنے جانے کےلیے باہر نکلتا ہوں تاکہ عوام پریشان نہ ہوں۔ مگر جب سے ان کی حکومت گئی ہے انہوں نے ملک کی سٹرکوں کو مسلسل بلاک کرنے کو اپنا جمہوری حق سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے جمہور یعنی عوام کو شدید دقت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

عمران خان کی یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ اگر عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ لانگ مارچ میں شامل ہوئی تو کوئی مسلح طاقت ایسے جلوس کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تحریک انصاف کے لیڈر تو لاکھوں لوگوں کا ہجوم لے کر اسلام آباد داخل ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت اگر عمران خان کی قیادت میں بیس پچیس ہزار لوگ بھی اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے اور حکومت مختلف ہتھکنڈوں سے انہیں تتر بتر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو پھر شاید اس ہجوم کی پیش قدمی روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ بات اب واضح ہو رہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے بادل نخواستہ ہی سہی کسی حد تک شہباز شریف کی حکومت کے اس ’حق‘ کو تسلیم کر لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روک لے اور امن و مان قائم کرنے کے لئے ممکنہ اقدام کرے۔ اسلام آباد میں دو ہزار فوجی جوانوں کی تعیناتی اور رینجرز و ایف سی کو تیار رہنے کے احکامات اسٹبلشمنٹ کی اس ’رعایت‘ کا اشارہ ہیں۔

یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بظاہر ایک آئینی طریقے سے اقتدار سنبھالنے والی حکومت ایک سیاسی احتجاج کو طاقت سے روکنے اور ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے متعدد صحافیوں کو مختلف مقدمات میں الجھانے کی کوشش بھی کی جا چکی ہے۔ اب گھروں پر چھاپے مار کر، راستے روک کر، دفعہ 144 نافذ کر کے اور ہراساں کرنے والے دھمکی آمیز بیان دے کر لوگوں کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شریک نہ ہوں ورنہ وہ اپنی جان و مال کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس کا فیصلہ تو بدھ کی شام تک ہی ہو سکے گا کہ حکومت کس حد تک مظاہرین کو خوفزدہ کرنے یا گھروں تک محدود کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام بہر حال پر امن سیاسی احتجاج کرنے کے بنیادی جمہوری اصول کے خلاف ہے اور ملکی آئین میں اجتماع اور اظہار کی آزادی کے حق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے حکومتی طریقوں کو فسطائی ہتھکنڈے قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی احتجاج کی بجائے انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے اور کسی بھی قیمت پر تصادم کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کے لیڈروں کے ایسے بیانات کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ لانگ مارچ کے دوران خوں ریزی بھی ہو سکتی ہے اور یہ احتجاج خونی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دھمکی نما بیانات شاید سیاسی ماحول میں شدت پیدا کرنے کے لئے دیے گئے ہوں لیکن اب حکومت انہیں تحریک انصاف کے پر امن احتجاج کے حق کو مسدود کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے اور کسی حد تک عدلیہ بھی اس سے متفق ہے۔تاہم ایک طرف حکومت نے اسٹبلشمنٹ سے ’اجازت‘ لے کر تحریک انصاف کے خلاف اقدام کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے تو دوسری طرف عمران خان فوج کو ہی اپنی مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ حکومت اور حکومت سے باہر سیاسی لیڈر یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ اگر وہ اسٹبلشمنٹ کی بجائے ایک دوسرے پر بھروسا کرنے اور باہم احترام اور قبولیت کا تعلق استوار کرنے کی کوشش کرتے تو ملکی حالات شاید اس حد تک دگرگوں نہ ہوتے۔

About خاکسار

Check Also

رہبر معظم کا تعزیتی پیغام، میرے عزیز رئیسی خستہ ناپذیر تھے، پانچ دن عمومی سوگ کا اعلان

رہبر معظم نے اپنے پیغام میں صدر آیت اللہ رئیسی اور ان کی ٹیم کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے