Breaking News
Home / اخبار / ملتان کی گدی اور سیاسی گداگر

ملتان کی گدی اور سیاسی گداگر

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کمپرومائزڈ اور بکے ہوئے ہیں اور اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے چپکے رہیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل پر سینیٹ میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کی سوچ اس ایوان کے سامنے رکھنا چاہوں گا، اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانا معاشی ذمہ داری کے عین مطابق ہے، ادارے کو کسی کی غلامی میں دے دیا گیا ہے یہ تاثر غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ کے ارکان کے تقرر کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہے، یہ ادارہ کل بھی اس ایوان کے تابع تھا اور آئندہ بھی تابع رہے گا۔انہوں نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کو سخت تنقید کا نشان بناتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے کل ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس کا افسوس ہے۔

حیرت انگیز طور پر ایک طرف اپوزیشن سٹیٹ بنک بل کو قومی خود مختاری اور سیکورٹی مفادات کے خلاف قرار دے کر کسی بھی قیمت پر اس کا راستہ روکنے کا دعویٰ کرتی تھی لیکن جمعہ کے روز اس بل پر رائے شماری کے وقت اپوزیشن کے 8 سینیٹرز اجلاس سے غیر حاضر تھے۔ حتیٰ کہ ووٹنگ سے تھوڑی دیر پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سینیٹر اجلاس سےاٹھ کر چلے گئے۔ البتہ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کی غیر حاضری شدت سے محسوس کی گئی کیوں کہ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر اپوزیشن لیڈر سٹیٹ بنک بل کے خلاف سخت باتیں کرتے رہے تھے۔ اس لئے اندازہ کیا جا رہا تھا کہ سینیٹ میں واضح اکثریت ہونے کی وجہ سے اپوزیشن اس بل کو منظور نہیں ہونے دے گی اور اس میں ضروری ترامیم کے بعد ہی منظور کیا جائے گا۔ تاہم حکومت نے اپوزیشن کے ان دعوؤں کا پول کھول دیا۔

اس کامیابی کے بعد اصولی طور پر تو حکومت کو خاموشی اختیار کرنا چاہئے تھی تاکہ یہ معاملہ ٹھنڈا ہوجائے اور ملک میں سیاسی تلخی میں اضافہ نہ ہو لیکن وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جمعہ کو بل منظور ہونے کے فوری بعد اپوزیشن پر شدید حملے کئے اور استہزائیہ انداز میں یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کیا جن کی غیر حاضری نے اس بل کو منظور کرنے میں مدد دی۔ گیلانی کو پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد سوموار کو ایک جذباتی تقریر میں ایک طرف انہوں نے چئیرمین سینیٹ کے کردار پر نکتہ چینی کی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ان حالات میں وہ سینیٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر کے طور پر استعفیٰ دے رہے ہیں اور انہوں نے پارٹی قیادت کو اپنا استعفیٰ بھجوا بھی دیا ہے۔

ایک شدید مشکل سیاسی مرحلہ سے نکلنے کے باوجود حکومت کی طرف سے بات ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ منگل کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی نے یوسف رضا گیلانی پر ذاتی حملے کئے اور انہیں اقتدار کا بھوکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’بکا ہؤا سیاست دان کبھی بھی اس عہدہ سے علیحدہ نہیں ہوگا‘ ۔ اگرچہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں موجود ہیں کہ یوسف رضا گیلانی نے حزب اختلاف لیڈر کے طور پر استعفیٰ تو د یاہے لیکن کیا وہ واقعی اس عہدہ کو چھوڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بدعہدی کرتے ہوئے دلاور خان گروپ کی مدد سے انہیں دلوایا تھا۔( گیلانی نے استعفیٰ پارٹی قیادت کو بھیجنے کا اعلان کیا ہے، اسے چئیرمین سینیٹ کو نہیں بھیجا گیا)۔

بہرحالصادق سنجرانی نے اپنے ایوان کے قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں بے رحمانہ تذلیل کے لئے جو کردار ادا کیا اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یاد رکھا جائے کہ پارلیمان کے قواعد وضوابط میں ”پالیسی بیان“ نامی شے کا ذکر بھی ہے۔ اس کی بدولت وفاقی کابینہ کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس میں کسی بھی وقت نمودار ہو کر حکومت کی کسی پالیسی کی وضاحت یا دفاع کا حق رکھتا ہے۔ ”پالیسی بیان“ مگر تحریری صورت میں لکھا ہونا چاہیے۔ اسے پڑھنے کے بعد متعلقہ وزیر اراکین پارلیمان کی جانب سے اٹھائے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ یہ دونوں نکات ذہن میں رکھے بغیر آپ سنجرانی کی فراہم کردہ سہولت کاری کو جان نہیں پائیں گے۔

 وفاقی حکومت کے اہم ترین وزیر ہوتے ہوئے بھی شاہ محمود قریشی حقارت سے یہ تاثر بھی پھیلاتے رہے کہ جیسے نادیدہ قوتوں نے گیلانی صاحب کی غیر حاضری یقینی بنائی۔ فرض کیا کہ شاہ محمود قریشی صاحب کا یہ تاثر درست بھی ہے تو عمران حکومت اور اس کے وزراء کو اس ضمن میں نام نہاد نادیدہ قوتوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ ان کی مبینہ مدد میسر نہ ہوتی تو پاکستان کا ایوان بالا سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری والا قانون مسترد کردیتا۔ وہ مسترد ہوجاتا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی ”امدادی رقم“ بھی میسر نہ ہوتی۔ یوسف رضا گیلانی صاحب نے شاہ محمود قریشی کے بقول اگر واقعتاً کسی اور ”کے اشارے پر عمران حکومت کو کمک فراہم کی ہے تو ان جیسے اہم وزراء کو اس کی بابت بردبار خاموشی اختیار کرنا چاہیے تھی۔  مگر لگتا ہے کہ وہ ملتان کی گدی کے لیے گند اچھالنے پر آمادہ تھے۔

سیاسی تدبر کے حوالے سے تو سینیٹ میں کامیابی کے بعد حکومت کو ’سستانے‘ اور سیاسی ماحول کو تناؤ سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن یوسف رضا گیلانی کو نشانہ بنا نے سے یہ واضح ہورہا ہے کہ حکومت صرف مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اور شہباز شریف کی اسٹبلشمنٹ سے قربت ہی کی وجہ سے پریشان نہیں ہے بلکہ اب اسے یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں پیپلز پارٹی واقعی اس کے متبادل کے طور پر خود کو تسلیم کروانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ اس حوالے سے بلدیاتی انتخابات کے دوران جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی فیصلہ کن ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شاہ محمود قریشی کی نکتہ چینی بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے عزائم کو ناکام بنانے کی حکمت عملی کا اعلان بھی ہے۔

جمعتہ المبارک، 3 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

حزب اللہ کے صیہونی فوج کے اہم ٹھکانوں پر نئے حملے

لبنان کی حزب اللہ نے ایک نئی کارروائی میں مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صہیونی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے