Breaking News
Home / اخبار / شہادت سے قبل حضرت علی کی وصیت۔۔ ہر انسان کے نام

شہادت سے قبل حضرت علی کی وصیت۔۔ ہر انسان کے نام

فاتح خیبر اور اشجع الناس کا لقب پانے والے علی ، ہر میدان میں فتح پا کر لا فتح الا علی لا سیف الا ذوالفقار کی سند لینے والے علی ، ہر جنگ میں سینہ تان کر مقابلہ کرنے والے اور کبھی فرار نہ ہوکر شجاعت کا تمغہ لینے والے حیدر کرار علی ، خیبر سے احد اور احد سے خندق کے سفر میں اللہ کے رسول  کی حفاظت کی لازوال مثالیں قائم کرنے والے علی اور میدان صفین و نہروان و جمل میں اپنی تلوار کے جوہر دکھا کر دشمن کو پچھاڑنے والے علی پر جب ایک ملعون عبدالرحمن ابن ملجم نے مسجد کوفہ کے محراب میں نماز فجر کے وقت زہر آلود تلوار سے ضربت لگائی تو اس اشجع الناس امام نے فقط ایک ہی صدا بلند کی "فزت ورب الکعبہ” کعبہ کے رب کی قسم علی  کامیاب ہوگیا۔ جس شہادت کی آرزو میں علی نے ساری زندگی میدان جہاد میں گذار دی، لیکن کسی انسان کے اندر اتنی طاقت و ہمت نہ آسکی کہ علی کو سامنے سے آکر اپنے وار سے زیر کرسکے۔ لیکن میدان کارزار میں ناکام و نامراد ہونے والا شکست خوردہ دشمن بالآخر علی  پر اس لمحے حملہ کرنے میں کامیاب ہوا، جب علی اپنی پسندیدہ ترین جگہ یعنی مسجد کے محراب میں اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول تھے۔

ابن ملجم نے سمجھا کہ شاید میں کامیاب ہوگیا، لیکن علی کی آخری صدا نے ثابت کر دیا کہ علی کامیاب ہوگیا۔ ذیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسی فاتح بدر و حنین و خیبر نے ضربت لگنے کے بعد اپنے بعد آنے والے انسانوں کو کیا وصیت اور کیا نصیحت فرمائی؟؟ بظاہر یہ وصیت انہوں نے اپنے بیٹوں اور دیگر اولاد اور اقرباء و خاندان کے لئے چھوڑی، لیکن امام کا کلام کسی خاص فرد، کسی خاص وقت اور کسی خاص زمانے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ تاقیامت آنے والے ہر انسان کے لئے ہوتا ہے۔ جب آپ  کو عبدالرحمن ابن ملجم نے ضربت لگائی تو آپ نے امام حسن  اور امام حسین  کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا "میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، دنیا کے خواہشمند نہ ہونا، اگرچہ وہ تمہارے پیچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے، جو کہنا حق کے لئے کہنا اور جو کرنا ثواب کے لئے کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔ مین تم کو، اپنی تمام اولاد کو، اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میرا یہ نوشتہ پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اپنے معاملات درست اور آپس کے تعلقات سلجھائے رکھنا۔ کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا عام نماز روزہ سے افضل ہے۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ان کے کام و دہن کے لئے فاقہ کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجودگی میں وہ تباہ و برباد نہ ہو جائیں۔ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے پیغمبر نے برابر ہدایت کی ہے اور آپ  اس حد تک ان کے لئے سفارش فرماتے رہے کہ ہم لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ آپ انہیں بھی ورثہ دلائیں گے۔ قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔ اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں اللہ سے ڈرنا، اُسے جیتے جی خالی نہ چھوڑنا، کیونکہ اگر یہ خالی چھوڑ دیا گیا تو پھر عذاب سے مہلت نہ پاؤ گے۔ جان، مال اور زبان راہ خدا میں جہاد کرنے کے بارے میں اللہ کو نہ بھولنا اور تم کو لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے بھی ہاتھ نہ اٹھانا، ورنہ بدکردار تم پر مسلط ہوجائیں گے۔ پھر دعا مانگو تو قبول نہ ہوگی۔

اے عبدالمطلب کے بیٹو۔ ایسا نہ ہونے پائے کہ تم ’’امیرالمومنین قتل ہوگئے، امیرالمومنین قتل ہوگئے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کر دو۔ دیکھو میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیا جائے اور دیکھو جب میں اس ضرب سے مر جاؤں تو اس ایک ضرب کے بدلے میں ایک ہی ضرب لگانا اور اس شخص کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، کیونکہ میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خبردار کسی کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹو، اگرچہ وہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو۔ نہج البلاغہ میں ایک اور مقام پر امیرالمومنین کی ایک وصیت نقل ہے، جو آپ  نے اس وقت ارشاد فرمائی جب عبدالرحمن ابن ملجم نے آپ   کے سر اقدس پر ضرب لگائی۔ آپ نے بطور وصیت فرمایا "تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم کئے رہنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔ بس پھر برائیوں نے تمہارا پیچھا چھوڑ دیا۔ میں کل تمہارا ساتھی تھا اور تمہارے لئے سراپا عبرت ہوں اور کل کو تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو مجھے اپنے خون کا اختیار ہوگا اور اگر مر جاؤں تو موت میری وعدہ گاہ ہے۔ اگر معاف کر دوں تو یہ میرے لئے رضائے الٰہی کا باعث ہے اور وہ تمہارے لئے بھی نیکی ہوگی۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے۔ خدا کی قسم یہ موت کا ناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے ناپسند جانتا ہوں۔ میری مثال اس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوتے ہی جو مقصد کو پالے اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی نیکو کاروں کے لیے بہتر ہے۔”

ان وصیتوں سے حضرت علی کی شخصیت کے بہت سارے پہلووں سے روشناسی ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ علی  اپنے پیروکاروں سے کیا چاہتے ہیں؟ انہیں کس کس چیز پر عمل کرنے کی نصیحت فرماتے ہیں؟ انہیں کس کس چیز سے بچنے کا حکم فرماتے ہیں؟ انہیں نجات کے لئے کیا کیا نسخے بتاتے ہیں؟ انہیں اللہ سے ڈرنے کا بار بار حکم کیوں دیتے ہیں؟ انہیں اپنے پاک رسول کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا درس کیوں دیتے ہیں؟ اور انہیں انتقام لینے کی بجائے معاف کرنے کی طرف کیوں راغب کرتے ہیں؟ یہاں سے یہ عقدہ بھی کھلتا ہے کہ اپنے قاتل کو معاف کر دینے کی گنجائش تو پیدا کر دیتا ہے لیکن اللہ کے باغی، قرآن کے باغی، سنت اور شریعت کے باغی اور اسلام و اسلامی حکومت کے باغی کو کسی طور بھی معاف کرنے کی گنجائش پیدا نہیں کرتا، یہیں سے علی  کے اعلٰی و ارفع کردار اور اہداف عیاں ہوتے ہیں۔
کسے را میّسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے