Breaking News
Home / اخبار / بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی پر دنیا کی خاموشی

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی پر دنیا کی خاموشی

اقوام متحدہ میں مشاورتی حیثیت کی حامل امریکا کی غیر منافع بخش تنظیم ”جسٹس فار آل‘‘ کی جانب سے رواں ہفتے منعقدہ ایک ورچوئل عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ بھارت نسل کُشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ”ایسا ہوتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔‘ پروفیسر گریگوری اسٹینٹن امریکی ادارے ”جینوسائڈواچ‘‘ کے بانی ہیں۔ یہ ادارہ نسل کُشی اور بڑے پیمانے پر قتل کی دیگر شکلوں کی پیشن گوئی اور تدارک کے لیے کام کرتا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی ’علامات اور عمل‘ موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم خبردار کر رہے ہیں کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر نسل کشی ہو سکتی ہے، نسل کشی کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے اور 2017 کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی حکومت کی امتیازی پالیسیوں میں مماثلت ہے۔ ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں نسل کشی کے مطالعہ اور روک تھام کے لیکچرار گریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایسا ہی کیا جائے گا جیسے میانمار میں روہنگیا کو پہلے قانونی طور پر غیر شہری قرار دیا گیا اور پھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے نکال دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں جس چیز کا سامنا ہے وہ بالکل اسی طرح کی سازش ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ بھارتی شہر ہردوار میں ایک ”ہندو دھرم سنسد‘‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مقررین نے ہندوؤں سے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے کی اپیل کی تھی۔ اسی طر ح کا ”دھرم سنسد‘‘ آئندہ ہفتے علی گڑھ میں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز تقاریر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں اورمسلمانوں کو بعض اوقات ”قتل عام‘‘ جیسی صورت حال تک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم پہلی مرتبہ کسی ”دھرم سنسد‘‘ سے مسلمانوں کی نسلی صفائے کی بات کہی گئی اور کہا گیا کہ اگر 20لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کردیا جائے تو بقیہ مسلمان بے چوں و چرا ”ہندو راشٹر‘‘ تسلیم کرلیں گے۔

اسی طرح بھارتی حکومت نے دسمبر 2019 میں ملکی شہریت قانون میں ترمیم کے ذریعے نسل پرستانہ اور مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ فیصلے کیے ۔ اس ترمیم کے بعد متعدد ملکوں سے آنے والے غیر مسلم شہریوں کو تو بھارتی شہریت لینے کا حق دیا گیا ہے لیکن کسی مجبوری کی بنا پر ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس ترمیم کا اصل مقصد آسام میں بنگلہ دیش سے 1971 کی خانہ جنگی کے دوران آنے والے تیس چالیس لاکھ مسلمانوں کو بھارت میں قیام کے حق سے محروم کرنا تھا۔ گزشتہ پچاس سال سے بھارت میں آباد اس گروہ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دستاویزی طور سے ثابت کریں کہ 1971 سے پہلے ہی یہاں آباد تھے یا انہیں بھارت میں رہنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس طرح کثیر تعداد میں مسلمانوں کو صرف ان کے عقیدہ کی وجہ بے وطن کرنے اور انہیں اپنے پیدائشی ملک میں رہنے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے ان اشتعال انگیز اور نفرت سے بھرپور بیانات کے بارے میں ایک لفظ کہنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اگرچہ گزشتہ روز لکھنو سے موصول ہونے والی خبر کے مطابق ہریدوار میں یہ بیان دینے والے ہندو لیڈر یاتی نرسنگھ آنند کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم بھارت میں موجودہ انتہاپسندانہ ذہنیت اور اس کی سرکاری سرپرستی کی صورت حال میں اس شخص کو سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گریگوری اسٹنٹن نے واضح کیا ہے کہ بھارت میں ایک ہندو انتہا پسند نریندر مودی اس وقت برسر اقتدار ہے اور وہ اپنا اختیار مذہبی انتہاپسندی اور نفرت کو فروغ دینے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اس کام کا آغاز کشمیر اور آسام میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات سے کیا جا چکا ہے اور باقی ماندہ ملک میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے ماحول سازگار بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ دنیا بھارت میں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر قتل و غارتگری کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک عالمی ماہر کی یہ وارننگ دنیا کے اہم دارالحکومتوں کے لئے قابل غور ہونی چاہیے۔

بھارت کے حجم اور سیاسی و معاشی اہمیت کی وجہ سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ابھی تک بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جرائم کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تاہم یہ خاموشی انسانیت کے خلاف مجرمانہ غفلت کی علامت بن رہی ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یہی رویہ روہنگیا کے بارے میں اپنایا تھا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلم نسل کشی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے پر ہورہی ہو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی ممالک اس پر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

منگل، 18 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے