Breaking News
Home / اخبار / بھارتی حکومت کے غیر انسانی اقدامات عالمی توجہ حاصل کیوں نہیں کر پاتے؟

بھارتی حکومت کے غیر انسانی اقدامات عالمی توجہ حاصل کیوں نہیں کر پاتے؟

حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز بیانات کے سبب بھارت  اس وقت سفارتی طوفان کی زد میں آ گیا، جب عرب ممالک نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔ اس کی وجہ سے پارٹی کو اپنے دو ترجمانوں کو ان کے عہدوں سے ہٹانا پڑا۔ بی جے پی نے عرب ممالک کے شدید احتجاج کے بعد پارٹی کی قومی ترجما ن نوپور شرما کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا، جبکہ ایک دوسرے رہنما پارٹی کی دہلی یونٹ کے ترجمان نوین کمار جندل کو پارٹی سے برطرف کر دیا ہے۔ دونوں نے اپنے بیانات میں پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز اور نازیبا باتیں کہی تھیں۔

بی جے پی کی قومی ترجمان نے تقریباً دس روز قبل ایک ویڈیو ڈیبیٹ کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی، جس کے خلاف بھارت اور پاکستان سمیت کئی دیگر اسلامی ممالک میں ناراضی کا اظہار ہوا۔ بھارت میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور نوپور شرما کے خلاف کیس بھی درج کرا یا گیا، تاہم حکمراں جماعت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پوری طرح سے ناقابل قبول ان توہین آمیز بیانات سے نہ صرف قطری عوام بلکہ دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ بی جے پی کے بیان اور عملے کی معطلی کا خیر مقدم کرتے ہوئے قطری حکومت نے کہا کہ بھارت کو عوامی سطح پر معافی مانگنے کے ساتھ ہی ان ریمارکس کی مذمت بھی کرنی چاہیے۔ وزارت کا کہنا تھا، ”ان افراد کے خلاف بی جے پی کی وضاحت اور تاخیر سے کی گئی معمولی تادیبی کارروائی سے مسلم دنیا کے درد اور غم کو کم نہیں کیا جا سکتا“۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد محمد الانصاری نے کہا کہ ”قطر کی حکومت بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر ان بیانات کی مذمت کرے اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں سے عوامی طور پر معافی مانگے”۔

بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتاؤ اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کی طرف سے نفرت اور خوف کی فضا پیدا کر کے ایک مشکل اور پیچیدہ صورت حال پیدا کی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے جستہ جستہ بھارت کے سیکولر مزاج کو ہندو انتہاپسندی سے تبدیل کرتے ہوئے مسلمانوں کو معاشرے میں تنہا کرنے اور ان کے خلاف متعصبانہ رویوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت میں گؤ کشی یا کسی دوسرے عذر پر مسلمان باشندوں کو تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ اس صورت حال کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کبھی ایسے کسی واقعہ پر افسوس یا مذمت کا اظہار سامنے نہیں آتا بلکہ بالواسطہ طور سے مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کی مشکلات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے حوالے سے بی جے پی کی حکمت عملی کے خد و خال اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہندوستان کی حکمران پارٹی نے ملک میں ایسے ہندو انتہاپسندانہ مزاج کو فروغ دیا ہے جو اب بھارت میں وسیع بنیادوں پر فساد اور انتشار کا سبب بن رہا ہے۔ گزشتہ روزبھی ملک بھر میں رسول پاک ﷺکے خلاف مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ ایک مظاہرے پر پولیس فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق ہوئے ہیں۔ درجنوں افراد کو زخمی حالت میں اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ متعدد شہروں میں دفعہ 144 لگا کر اور سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کے ذریعے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی جمعہ کے روز ملک بھر میں بی جے پی کے بعض عناصر کی طرف سے اہانت آمیز کلمات ادا کرنے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت نے مذہبی شدت پسندی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے ہیں، نئی دہلی کے ساتھ ڈھاکہ کی عوامی لیگ حکومت کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اس کے باوجود بنگلہ دیش میں بھارتی حکمران جماعت کے ذمہ دار ترجمانوں کی جانب سے اشتعال انگیز اور گستاخانہ بیانات کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور بظاہر مذہبی جذبات کو کنٹرول کرنے کی شہرت رکھنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھی موجودہ صورت حال میں عوامی مظاہروں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

نریندر مودی نے گزشتہ سات برس کے دور حکومت میں پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی وہی فضا پیدا کی ہے جو وہ اس سے پہلے ریاست گجرات میں متعارف کروا چکے تھے۔ وزیر اعلیٰ گجرات کے طور پر مودی پر مسلمانوں کی قتل و غارت گری کے سنگین الزام عائد ہیں۔ انہی الزامات اور مسلم کش رویہ کی وجہ سے 2007 میں وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک میں نریندر مودی کا داخلہ ممنوع تھا۔ اسے بھارتی نظام ریاست کی شدید ناکامی سمجھنا چاہیے کہ ملک کی بہت بڑی اقلیت کے خلاف شدید تعصب و نفرت کا پرچار کرنے کے باوجود مودی پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی میں قومی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پھر 2007 کے انتخابات میں انہیں پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدوار بھی بنا دیا گیا۔ انہوں نے ایک طرف پارٹی کے ہندتوا ایجنڈے کو زیادہ شدت پسندی کی طرف مائل کیا تو دوسری طرف ملکی سرمایہ داروں کو کانگرس کی معتدل اور عوام دوست معاشی پالیسیوں کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ لبرل معاشی ایجنڈے کی بنیاد پر ساتھ ملا لیا۔

نئی دہلی میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے بھی نریندر مودی کی زیادہ توجہ ملک میں ہندو انتہا پسندی کو مستحکم کرنے اور ایسے گروہوں کو مضبوط کرنے پر مرکوز رہی تھی جو اقلیتی عقائد کے خلاف پر تشدد کارروائیوں میں ملوث رہتے ہیں۔ مجرمانہ ذہن رکھنے والے لیڈر کی سربراہی میں اب ملک کا انتظامی ڈھانچہ ایسے جرائم کی پشت پناہی بلکہ حوصلہ افزائی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ملکی نظام پر پوری طرح قابو پانے کے لئے نریندر مودی نے سرمایہ داروں، میڈیا اور عدالتوں کو کنٹرول کرنے کی منظم اور سوچی سمجھی حکمت عملی پر کام کیا ہے۔ سیکولر ازم کا سہرا باندھنے والا بھارتی نظام اس وقت مودی کی ہندو انتہاپسندی اور مسلح مذہبی جتھوں کی دہشت گردی کے ہاتھوں بے بس ہو چکا ہے۔

مودی کی قیادت میں ہندو انتہا پسندی اس حد تک بھارتی معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے کہ بی جے پی کی مدمقابل پارٹیاں مثلاً کانگرس پارٹی کے لیڈر بھی عوام میں پذیرائی کے لئے، مذہبی ہتھکنڈے اختیار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کی انتہاپسندی کے خلاف سیاسی قوتیں کمزور اور بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہاپسندی کے ہاتھوں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذہبی اقلیتوں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔

اس صورت حال میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومتی کا کوئی بھی غیر انسانی اقدام عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ حتی کہ اگست 2019 میں کشمیر کی خود مختاری اور شناخت کے حوالے سے بھارتی آئین میں شامل شقات 370 اور 35 اے کو کسی پارلیمانی بحث کی بجائے ایک صدارتی حکم سے ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کردی گئی اور اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی و منشا کے بغیر تین انتظامی اکائیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس فیصلہ کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تمام کشمیری قیادت کو غیر معینہ مدت کے لئے قید رکھا گیا۔ حریت پسند کشمیری لیڈروں کو نشان عبرت بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ حال ہی میں یاسین ملک کو دی جانے والی عمر قید کی سزا اس سرکاری حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملکی عدالتیں بھی نئی دہلی کی غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکتوں کا نوٹس لینے کا حوصلہ نہیں کرتیں۔

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے