Breaking News
Home / اخبار / بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارتی مسلمانوں کو انتخابی عمل سے کیسے دور رکھا ہے؟

بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارتی مسلمانوں کو انتخابی عمل سے کیسے دور رکھا ہے؟

حیدر علی خان ایک غیر معروف بھارتی سیاستدان ہیں۔ اتر پردیش کے ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان کو ملک میں بلکہ شاید اپنی ریاست میں بھی اس وقت تک بہت کم لوگ جانتے ہیں جب تک انہوں نے ایک ہفتہ قبل پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ حیدر خان قومی جمہوری اتحاد کی جانب سے اتر پردیش میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور قومی جمہوی اتحاد درحقیقت وزیر اعظم نریندرا مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف ہے ۔اگرچہ خان بی جے پی کا حصہ نہیں ہے مگر وہ اس کا چھوٹا سا اتحادی ضرور ہے ، این ڈی اے میں ملک کی سب سے بڑی ریاست میں بحیثیت اولین مسلم امیدوار کو بہت اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔

بھارتی سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی یا نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ بات کئی دہائیوں سے زیربحث ہے۔ بھارت کی پہلی لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں صرف چار فیصد اراکین  مسلمان تھے جب کہ 1950 کے اوائل میں ان کی تعداد 10 فیصد کے لگ بھگ تھی۔ بھارت قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سات سال قبل جب سے نریندرا مودی کی قیادت میں آئی ہے اس بحث میں تیزی آگئی ہے کیونکہ بی جے پی کی مسلمان مخالف پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بی جے پی کے مخالفین مودی حکومت کو مسلمان مخالف قرار دیتے ہیں جو کہ اس وقت ملک کی کل آبادی کا 14 فیصد ہیں۔ بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ مسلمان نمائندوں کو انتخابات میں کھڑا کرنے سے نفرت کرتی ہے۔ بی جے پی نے 2014، 2017 اور 2019 کے انتخابات میں بھارت کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش سے کوئی مسلمان امیدوار کھڑا نہیں کیا۔

مزید برآں 2007 کے انتخابات میں مودی نے اپنی ہوم سٹیٹ گجرات سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ مسلمانوں کو دور رکھنے سے بی جے پی کا ہندو پسند چہرہ زیادہ روشن ہوتا ہے اور انتخابات جیتنے کے لیے ہندو اکثریتی ووٹ پر اس کا کنٹرول بڑھتاہے۔ اگرچہ مودی کا بھارتی شہریوں کے ساتھ بہت مقبول وعدہ یہ ہے کہ ” سب کا ساتھ، سب کا وکاس( یعنی سب کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کے مواقع) تاہم بی جے پی کوئی بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ نہیں ہے اور نہ ہی 2014 اور 2019 میں بی جے پی کسی مسلمان رکن کو ٹکٹ دیا ہے۔ 2014 کے انتخابات میں جب مودی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو بی جے پی نے 428 میں سے صرف سات مسلمان نمائندوں کو ٹکٹ دیا تاہم ان میں سے کوئی بھی نہ جیت سکا۔

بھارتی کی ایوان زیریں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ 543 اراکین پر مشتمل ہاؤس میں صرف 27 مسلمان شامل ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی بی جے پی سے نہیں تھا ۔ بہت سارے تجزیہ نگار مسلمانوں کی نمائندگی کے نہ ہونے کو بی جے پی کی سیاست پر دھبہ قرار دیتے ہیں۔ خاص طور اتر پردیش میں اس پارٹی کے ریکارڈ کو دیکھا جائے جہاں آخری انتخابات میں پارٹی نے 80 میں سے 71 نشستیں جیتی تھیں مگر کوئی مسلم امیدوار شامل نہیں تھا اگرچہ مسلمان اس ریاست میں 18 فیصد ہیں۔ اس صورتحال میں حیدر خان کی نامزدگی نایاب عمل ہے ۔ اس نامزدگی نے ایک مرتبہ پھر موجودہ بھارت کے مسلمانوں کی پسماندگی ایک مرتبہ کھل کر سامنے آئی ہے۔

مسلمان مخالف بیانیہ بھارت میں اس وقت بلند ترین سطح پر ہے اور بڑھتی ہوئی مذہبی نفرت کا نتیجہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل تشدد کی صورت میں نکلا ہے۔ درحقیقت حال ہی میں ہردیوار میں ایک تقریب میں ہندوؤں نے بھارت کو اقلیتوں سے پاک کرنے پر زور دیا ہے اور ان کے خلاف مسلح جنگ پر زور دیاہے اگر اس وقت عملی طور پر مسلمان خود کو گھیراؤ میں محسوس کرتے ہیں تو یہ ان کا قصور نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور ایودھیا مندر کی تعمیر سے ہندو انتہا پسندوں کا جو حوصلہ بڑھا ہے اس کا نتیجہ مسلمان ایک طویل عرصے سے بھگت رہے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کو پاکستان کا حمایتی اور شک کی نگاہ سے دیکھنے سے بھارتی مسلمانوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

دسمبر میں مودی نے درجنوں کیمروں اور ہندو عوام کی موجودی میں گیروے رنگ کے کپڑے پہن کر گنگا میں اشنان کیا جس کا مقصد ہندو ووٹ پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا ہے۔تاہم خاص بات یہ ہے کہ کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں اس پر تماشا دیکھتی رہی ہیں۔ تاہم یہ جماعتیں مسلمانوں کے حوالے سے خدشات کا شکار ضرور ہیں مگر یہ جماعتیں اس لیے بولتی نہیں ہیں کہ ان کے ہندو مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے برعکس تاہم وہ مسلمان امیدوار میدان میں لاتے رہتے ہیں۔ کرسٹوفر جوفرلیٹ نے اپنی کتاب” اکثریتی ریاست: بھارتی قومیت پرستی نے کیسے بھارت کو تبدیل کر دیا” نامی کتاب میں مسلمانوں کی پسماندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ تاریخی حقائق  کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بھارت میں مسلمانوںی کی پسماندگی کوئی نیا یا انوکھا عمل نہیں ہے۔

جمعتہ المبارک، 4 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

غرب اردن، فلسطینی مجاہدین اور صہیونی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں

غرب اردن کے مختلف علاقوں میں فلسطینی مجاہدین اور صہیونی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے