بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کانفرنس اور سیمینار کا انعقاد بڑا مستحسن کام ہے۔ کیونکہ شیعہ سماج، دوسروں کی بات بعد میں، خود ہم ائمہ علیہم السلام کی معرفت کے سلسلے میں کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا ہیں۔ کبھی کسی پہلو پر غیر مستند انداز میں حد سے زیادہ توجہ دی گئی، مگر دوسرے پہلؤوں سے غفلت برتی گئی۔ بسا اوقات تو اتنی بھی توجہ نہیں کی گئی، بس ظاہری امور اور ظاہری چیزوں پر توجہ دی گئی ہے۔ میری نظر میں شیعہ ہونے کی حیثیت سے، اہل تشیع کی حیثیت سے ہمارے بڑے فرائض میں سے ایک یہی ہے کہ اپنے ائمہ کا دنیا میں تعارف کرائیں۔ بعض ائمہ جیسے امام حسین علیہ السلام، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا کچھ وجوہات سے تعارف کرایا گيا ہے، دوسروں نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے، کہا ہے اور کسی حد تک ان کی شناخت غیر شیعہ دنیا اور غیر اسلامی دنیا میں موجود ہے لیکن اکثر ائمہ علیہم السلام کو پہچنوایا نہیں گيا ہے۔ امام حسن علیہ السلام اتنی عظمتوں کے باوجود ناشناختہ ہیں۔ حضرت امام موسی کاظم، امام علی نقی، امام جعفر صادق علیہم السلام اتنے بڑے نیٹ ورک اور غیر معمولی فعالیت کے باوجود دنیا میں ناشناختہ ہیں۔ اگر غیر شیعہ افراد نے ان کے بارے میں کچھ باتیں بیان کی ہیں، ظاہر ہے کہ جب غیر شیعہ ہو تو فرقے سے غیر مربوط باتیں ہی بیان کرے گا، تو وہ بہت قلیل اور محدود ہیں۔ مثلا فلاں صاحب عرفان مصنف نے عرفا کی فہرست میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ذکر کیا ہے اور حضرت کے بارے میں آدھا صفحہ یا اس سے کچھ کم لکھا ہے جس میں آپ کو ایک عارف شخص قرار دیتے ہوئے کچھ باتیں کی ہیں۔ یہ بس اسی حد تک ہے، اس سے زیادہ نہیں ہے۔

میرے نقطہ نظر سے ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے بارے میں تین پہلؤوں سے کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک روحانی و الہی پہلو ہے۔ یعنی تقدس کے پہلو سے، ائمہ علیہم السلام کے یہاں جو تقدس ہے اس پہلو سے۔ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بارے میں بات ہونی چاہئے۔ لیکن بات ٹھوس ہونی چاہئے۔ کبھی کچھ باتیں بیان کی جاتی ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر کچھ روایتیں بھی پیش کی جاتی ہیں مگر وہ ضعیف ہیں۔ ہمیں ائمہ علیہم السلام کے ملکوتی پہلو، ائمہ کے روحانی و آسمانی پہلو کو بیان کرنا چاہئے۔ اسی طرح پیغمبر کے سلسلے میں آنحضرت کی عصمت، ان ہستیوں کے اللہ سے رابطے، فرشتوں سے ان کے رابطے کے بارے میں، یہ ساری چیزیں ان کے اندر موجود ہیں، ان کی ولایت اپنے روحانی مفہوم کے اعتبار سے، ان ساری چیزوں پر اس پہلو سے اچھا اور محکم عالمانہ کام ہونا چاہئے۔ 

دوسرا پہلو ان کے فرمودات اور ان کی  تعلیمات کا ہے۔ آپ حضرات نے بھی اس کا ذکر کیا۔ مختلف موضوعات کے تعلق سے، زندگی کے مختلف مسائل کے بارے میں، انسان کی ضرورت کے گوناگوں امور کے بارے میں۔ اخلاقیات، معاشرت، دین، احکام، ان کے بارے میں ہمارے ائمہ کے اقوال ہیں، نظریہ ہے۔ اسے بیان کیا جانا چاہئے۔ ان پہلؤوں سے جن میں بعض کی آج دنیا میں ضرورت بھی ہے ہم غفلت برتتے ہیں۔ مثال کے طور پر حیوانات کی حمایت کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ہماری روایتوں میں اس موضوع پر ائمہ نے، جانوروں کا خیال رکھنے اور جانوروں کی حمایت کے بارے میں کتنی بحثیں کی ہیں۔ اگر اسے دنیا میں  پیش کیا جائے، بیان کیا جائے، ان کی شناخت کرائی جائے تو واقعی یہ بہت اہم چیز ہوگی۔ اس کے بارے میں ہم میں سے کوئی کب سوچتا ہے، ہم میں کون ہے جو اس موضوع پر توجہ دے رہا ہے؟ معاشرت کے امور، غیر شیعہ اور غیر مسلم سے روابط کے بارے میں جو باتیں ہیں، اس بارے میں ہماری روایتوں میں بہت ساری باتیں موجود ہیں، قرآن کے دائرے میں، قرآن کریم۔  «لايَنْھاكُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّين‏» یہ باتیں جنہیں ہم نے بار بار بیان کیا، مکرر ان کا ذکر کیا۔ ائمہ علیہم السلام کے اقوال سے یہ چیزیں بیان کی جائیں، دوسروں تک پہنچائی جائیں۔ ہمارے پاس اتنی ساری کتابیں ہیں۔ یعنی بحار الانوار مثلا 100 جلدوں کی کتاب ہے۔ اسی طرح کی بے شمار کتابیں ہیں۔ لیکن یہ سب ایک خاص  دائرے تک محدود ہیں۔ میں نے اس دن ایک شعر پڑھا

مِی نابی ولی از خلوت خُم  – چو در ساغر نمی‌آیی چه حاصل؟

(خالص شراب ہو لیکن خم کی خلوت گاہ سے ساغر میں نہیں آتی تو کیا فائدہ۔(

خالص شراب کو جام میں لانا چاہئے کہ اس سے استفادہ کیا جائے، مگر وہ گھڑے میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم نے اپنی اس خالص شراب کو، زندگی کی معرفتوں کی اس خالص شراب کو جو ائمہ سے ملی ہے گھڑے کے اندر رکھا ہے اور اس کے منہ  پر ایک اینٹ رکھ دی ہے، گھڑے کے منہ پر اینٹ۔ پرانے زمانے میں گھڑے کے منہ پر اینٹ رکھ کر اس کا منہ بند کر دیا کرتے تھے۔ ہم نے یہ کام کیا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسے آج کی رائج زبان میں، ٹیکنیکل زبان میں صحیح روش کے ذریعے دنیا میں پھیلانا چاہئے۔ آج دنیا سے رابطہ قائم کرنا آسان ہو گيا ہے۔ یعنی آپ یہاں بیٹھ کر ایک بٹن دباتے ہیں، دس منٹ وقت دیتے ہیں اور دنیا کے دور دراز کے علاقے میں، آسٹریلیا میں، کینیڈا میں، امریکا میں کسی خاص جگہ پر لوگ آپ کی باتیں سنتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس کام کے لئے یہ روش استعمال کرنا چاہئے۔ تاہم زبان کا مسئلہ اہم ہے۔ اسے کس زبان میں آپ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ تو یہ دوسرا اہم پہلو ہے جو ائمہ علیہم السلام سے مربوط ہے اور ائمہ کے تعارف کے لئے اس پر کام ہونا چاہئے۔

تیسرا پہلو سیاست کا ہے۔ یہ وہی چیز ہے کہ ائمہ علیہم االسلام کی زندگی کے برسوں میں جس پر میں نے بنیادی طور پر کام کیا۔ ائمہ کیا کرتے تھے، کیا کرنا چاہتے تھے۔ سیاست کا پہلو بہت اہم ہے۔ ائمہ کی سیاست کیا تھی؟ یہ چیز کہ امام ان تمام مدارج کے ساتھ، اس الہی منزلت کے بعد، اس الہی امانت کے ساتھ جو انہیں دی گئی تھی، بس اس بات پر اکتفا کر لیں کہ کچھ فقہی احکام بیان کر دیں، کچھ اخلاقیات بیان کر دیں! یہ اس انسان کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے جو بخوبی غور کر رہا ہے۔ ان ہستیوں کے مد نظر عظیم اہداف تھے۔ ان کا بنیادی ہدف اسلامی معاشرے کی تشکیل کرنا تھا اور اسلامی معاشرے کی تشکیل اسلامی حاکمیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی وہ اسلامی حاکمیت کے لئے کوشاں تھے۔ امامت کا ایک اہم پہلو یہ ہے۔ امامت یعنی دین و دنیا کی سربراہی، مادی و روحانی سربراہی۔ مادی سے مراد یہی امور مملکت چلانا، حکومت چلانا، سارے امام اس کے لئے کوشاں رہے، یعنی بلا استثنا سارے ائمہ اس کوشش میں رہے۔ لیکن الگ الگ روشوں سے، ان روشوں کے الگ الگ حصے تھے، کوتاہ مدتی اہداف بھی تھے لیکن دراز مدتی ہدف وہی تھا۔ یہی تو ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے بارے میں ابھی میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ آپ سے لوگ رجوع کرتے تھے کہ آپ قیام کیوں نہیں کرتے؟

روایت میں بار بار آیا ہے، آپ نے بھی دیکھا ہے کہ ‘حضرت آپ قیام کیوں نہیں کرتے؟’ حضرت کوئی نہ کوئی استدلال اور جواب، ہر کسی کو کوئی جواب دے دیا کرتے تھے۔ حضرت سے اتنا سوال کیا کرتے تھے کہ آپ قیام کیوں نہیں کرتے؟ وجہ یہ تھی کہ حضرت کو قیام کرنا تھا۔ شیعوں کو اس کا علم تھا، شیعوں کے نزدیک یہ چیز مسلّمات میں تھی۔ جب امام حسن علیہ السلام پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے صلح کر لی تو حضرت امام حسن علیہ السلام سے جو بات بار بار نقل ہوئی ہے یہ ہے کہ آپ فرماتے تھے: ما تدری لَعَلَّہُ فِتْنَۃٌ لَكُمْ‏ وَ مَتاعٌ‏ إِلى‏ حِين‏ (1) اس کا ایک وقت ہے، ایک میعاد ہے، ایک معینہ وقت ہے۔ آپ کو کیا معلوم۔ یعنی یہ وعدہ ہے۔ روایت میں یہ وعدہ امام علیہ السلام کی زبانی معین بھی کر دیا گیا۔ روایت میں آپ فرماتے ہیں: «ان اللّہ جعل ھذا الأمر فی عام یا فی سنۃ سبعین» طے ہو گیا تھا۔ امام حسن نے 41، 40، 41 میں یہ بات کہی، طے تھا کہ 70 ہجری میں قیام کیا جائے اور اسلامی حکومت تشکیل دی جائے۔ قضا و قدر الہی میں یہ تھا کہ یہ کام ہونا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: «فَلَمَّا قُتِلَ‏ الْحُسَيْنُ‏ عَلَيْہِ‌السَّلَامُ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّہِ عَلَى أھْلِ الْأَرْضِ فَأَخَّرَہ‏» جب سنہ 61 ہجری میں (محرّم 61) میں امام حسین شہید کر دئے گئے تو اسے ٹال دیا گيا۔ یہ سنہ 70 میں ہونا تھا، مگر سید الشہدا کی شہادت کی وجہ سے اور کچھ باہری عوامل کی بنیاد پر جو اس کے نتیجے میں وجود میں آئے اس مہم کو ٹال دیا گيا۔ اب روایت میں آیا ہے: «اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّہِ عَلَى أَھْلِ الْأَرْض» لیکن ہم جانتے ہیں کہ غیظ و غضب کی شدت اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوتا ہے وہ انہیں ظاہری عوامل اور عام عوامل سے مطابقت رکھتا ہے۔ عام عوامل و اسباب یہی ہیں، ایک اور روایت میں ہے: «ارْتَدَّ النَّاسُ‏ بَعْدَ الْحُسَيْنِ‏  إِلَّا ثَلَاثَۃ» امام حسین کے بعد مرتد ہو گئے، اس معنی میں نہیں کہ دین سے برگشتہ ہو گئے، اس معنی میں کہ شیعہ جس راستے پر چل رہے تھے اس کے بارے میں تردد کا شکار ہو گئے۔ ایسی حالت میں کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں، تین افراد: نہیں معلوم کون، کون اور یحیی ابن ام طویل، تین لوگوں سے زیادہ نہیں بچے۔ «ثم ان الناس» حضرت فرماتے ہیں کہ «ثُمَ‏ إِنَ‏ النَّاسَ‏ لَحِقُوا وَ كَثُرُوا» (لوگ ملحق ہوتے رہے اور بڑھتے رہے۔) امام زین العابدین نے تیس سال زحمتیں کیں، اس کے بعد حضرت باقر علیہ السلام نے محنتیں کیں تو نتیجہ یہ ملا۔ 

اسی روایت میں جو میں پڑھ رہا تھا کہ اللہ نے ٹال دیا اس حکومت کے مسئلے کو «الی مِائَۃ و أَرْبَعِينَ» (2) سنہ 140 تک۔ سنہ 140 امام صادق علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ حضرت 148 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ شیعوں کے درمیان، اہم شیعہ ہستیوں کے درمیان یہ بات کہی جاتی تھی، بار بار ذکر کی جاتی تھی۔ بعد میں حضرت نے اسی روایت میں اس تاخیر کی وجہ بیان فرمائی کہ ایسا ہو گیا، اس لئے تاخیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ زرارہ، یہ روایت ہے، زرارہ تو ان کے بہت قریبی افراد میں تھے۔ زرارہ کوفے میں تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کوفے کے رہنے والے تھے، کوفہ میں قیام پذیر تھے۔ زرارہ حضرت کو ایک پیغام دیتے ہیں، حضرت صادق علیہ السلام کو ایک خط لکھتے ہیں کہ ہمارے دوستوں میں سے ایک شخص، عوام میں سے، یعنی شیعوں میں سے ایک شخص قرض کی مصیبت میں مبتلا ہو گیا ہے اور حکومت اسے گرفتار کرنا چاہتی ہے قرضے کی وجہ سے، بھاری قرض کی وجہ سے جو اس پر ہے۔ وہ فرار ہو جاتا ہے، ایک عرصے سے اپنے بیوی بچوں سے دور ہو گیا ہے، فرار ہو گیا ہے اور آوارہ وطن گھوم رہا ہے کہ گرفتاری سے بچ جائے۔ اب یہاں میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر «ھذا الأمر» یہ ھذا الأمر روایتوں میں بار بار آیا ہے۔ مراد یہی حکومت کا مسئلہ ہے۔ یہ چیز اگر اسی ایک دو سال کے اندر رو نما ہونے والی ہے تو یہ چیز اس وقت تک روک کر رکھی جائے جب آپ مسند پر بیٹھ جائیں اور مسئلہ حل ہو جائے اور اگر ایسا نہیں ہے اور ایک دو سال کے اندر یہ نہیں ہونا ہے تو پیسہ جمع کیا جائے، احباب پیسہ جمع کریں اور اس بیچارے کا قرض اتاریں اور وہ اپنے گھر اور کنبے میں لوٹ سکے۔ یہ سوال زرارہ کرتے ہیں، یہ معمولی بات نہیں ہے۔ زرارہ کو کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک دو سال کے اندر حکومت تشکیل پا جائے گی؟

ایک اور روایت ہے، وہ بھی زرارہ سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں: «و اللّہ لا اری علی ھذہ الاعواد الا جعفر» اعواد کا مطلب ہوتا ہے منبر، منبر کے ستون۔ فرماتے ہیں کہ میں منبر کے ان ستونوں پر جعفر کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھتا ہوں۔ یعنی انہیں یقین تھا کہ حضرت آکر مسند خلافت پر بیٹھیں گے۔ یعنی ایسا تھا۔ لیکن پھر «يَمْحُوا اللَّہُ ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ‏ وَ عِنْدَہُ أُمُّ الْكِتابِ‏» قدر الہی یہ ہے، قضائے الہی یہ نہیں ہے۔ جی ہاں! قضائے الہی، یعنی وہ چیز جو طے شدہ ہو چکی ہے، جو حتمی ہو چکی ہے۔ وہ نہیں تھی۔ خاص عوامل وغیرہ کی وجہ سے یہ ہوا۔ 

تو ائمہ علیہم السلام اس قضیئے کے لئے کوشاں تھے۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ اس تعلق سے امام رضا علیہ السلام کا کردار کیا رہا۔ اب اس وقت مجھے اس تقریر کی باتیں یاد نہیں ہیں جس کا حوالہ آپ نے دیا۔ اس سے قبل بھی میں نے پہلے سال ایک  پیغام مشہد بھیجا تھا۔ اس پیغام میں امام رضا علیہ السلام کے ولی عہدی کا منصب قبول کرنے کے فیصلے کا تجزیہ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ در اصل امام رضا علیہ السلام اور مامون، اس باہوش، زیرک اور بے حد چالاک مامون کے درمیان ایک مقابلہ تھا۔ مامون نے امام رضا کو خراسان بلایا اور یہ فیصلہ کیا، پہلے اس نے کہا کہ خلافت دوں گا، پہلے ولی عہدی کی بات نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو خلافت دوں گا۔ حضرت نے قبول نہیں کیا۔ اس نے اصرار کیا۔ پھر اس نے کہا کہ جب آپ قبول نہیں کر رہے ہیں تو ولی عہدی لیجئے۔ مامون کے ایسا کرنے کی وجہ کیا تھی؟ میں نے مامون کے اس اقدام کی چار پانچ وجہیں بیان کیں کہ وہ ان اہداف کے بارے میں سوچ رہا تھا، ان چیزوں کی کوشش میں تھا۔ امام رضا علیہ السلام نے قبول کیا تو اس کی بھی پانچ چھے وجہیں میں نے بیان کیں کہ آپ نے کیسے قبول کیا، کیوں یہ قدم اٹھایا، اس کے فوائد کیا رہے۔ ایک عظیم مہم، ایک غیر معمولی غیر فوجی جنگ یعنی سیاسی جنگ در اصل حضرت اور مامون کے بیچ شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں حضرت نے مامون کو زمیں بوس کر دیا۔ حضرت نے مامون کی مٹی پلید کر دی۔ یہاں تک کہ مامون حضرت کو قتل کر دینے پر مجبور ہو گیا۔ ورنہ اس سے  پہلے یہ صورت حال نہیں تھی، وہ لوگ حضرت کا احترام کرتے تھے، نماز کی امامت کے لئے بھیجتے تھے۔ یہ چیزیں تھیں۔ وہاں میں نے تشریح کی ہے کہ مامون نے کیسے اور کیوں یہ کام کئے، اس کے کیا مقاصد تھے، اس کے ذہن میں کون سے مفادات تھے۔ اس زمانے میں آپ کی طرح، آپ نوجوان ہیں الحمد للہ اور ہمت و حوصلہ ہے، اس وقت ہمارے پاس بھی ہمت و حوصلہ تھا اور یہ کام کیا کرتے تھے۔ اب تو ان مفاہیم و معانی سے ہم پوری طرح دور ہو گئے ہیں۔ 

بہرحال امام رضا علیہ  السلام اور بقیہ ائمہ کی زندگی کے یہ  تین  پہلو بیان کئے جانے چاہئے۔ آپ کا ہنر یہ ہے کہ ان تینوں حصوں سے متعلق مطالب جمع کیجئے، غیر مستند چیزوں کو ہٹا دیجئے، تیسری چیز یہ ہے، تیسری چیز سب سے اہم ہے کہ مناسب زبان میں، دور حاضر کی زبان میں، غیر شیعہ مخاطب افراد، بلکہ شیعوں کے لئے بھی، ہمارے جوانوں میں بھی بعض ایسے ہیں جو ان مطالب و مفاہیم سے اتنے ہی دور ہیں جتنا غیر شیعہ اور غیر مسلمان دور ہیں، انہیں کوئی اطلاع نہیں ہے، ان چیزوں کو بیان کیجئے۔ میری نظر میں اگر یہ کام ہو تو صرف کانفرنس اور تقریر وغیرہ تک محدود نہیں رہے گا، اس کا باقاعدہ قابل مشاہدہ فائدہ نظر آئے گا۔ 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1)  اس آیت سے اقتباس «وَ إِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ وَ مَتاعٌ إِلى‏ حِين‏»

(2)  «إِلَى أَرْبَعِينَ وَ مِائَة»