Breaking News
Home / اخبار / عمران خان پر قاتلانہ حملے کے محرکات کیا ہیں؟

عمران خان پر قاتلانہ حملے کے محرکات کیا ہیں؟

وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں جمعرات کی شام جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ ہوئی تو پہلا سوال جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرتا نظر آیا وہ یہی تھا کہ کیا عمران خان اس فائرنگ کا نشانہ بنے ہیں اور اگر ایسا ہے تو انھیں کہاں گولی لگی اور ان کی حالت کیسی ہے۔

حکام کی جانب سے اس واقعے میں عمران خان سمیت 14 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جن میں سے تحریکِ انصاف کے سربراہ سمیت پانچ ایسے افراد ہیں جنھیں گولی سے زخم آیا ہے۔

فائرنگ کے اس واقعے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں جہاں تحریکِ انصاف کے رہنما اس بات پر تو متفق نظر آئے کہ عمران خان اس فائرنگ کا ہدف بھی تھے اور انھیں گولی بھی لگی ہے تاہم گولیوں کی تعداد اور نشانہ بننے کے مقام پر متضاد اطلاعات ہی سامنے آئیں۔

کچھ دیر بعد پی ٹی آئی کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں عمران خان کو کنٹینر سے اس حالت میں نکلتے دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی ٹانگ پر پٹی بندھی عہوئی تھی جس سے ظاہر تھا کہ زخمی ہونے کے بعد انھیں کنٹینر میں ہی ابتدائی طبی امداد دی گئی تھی۔

عمران خان کنٹینر سے نکل کر اپنی گاڑی میں لاہور پہنچے جہاں انھیں شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا۔ اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ گولی عمران خان کی ٹانگ میں لگی ہے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

لانگ مارچ کے دوران تشدد اور کسی ناخوشگوار واقعہ کا اندیشہ موجود تھا تاہم یہ امکان نہیں تھا کہ اس دوران عمران خان جیسے قومی اور مقبول لیڈر پر براہ راست حملہ کرنے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یک و تنہا شخص کی طرف سے عمران خان پر براہ راست فائرنگ اور اس کا اعتراف اس معاملہ کو سنگین بناتا ہے۔ عوامی اجتماعات اور قومی لیڈروں کی حفاظت کے ذمہ دار سب اداروں کو اس سانحہ کا جائزہ لے کر طے کرنا چاہیے کہ حفاظتی انتظامات کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی دوسرا واقعہ رونما نہ ہو اور ملک میں سیاسی جمہوری عمل جاری ساری رہے۔ اور وہ تمام لوگ جو کسی بھی حکومت کے خلاف کسی بھی طریقہ سے اپنا احتجاج رجسٹر کروانا چاہتے ہیں، وہ کسی خوف و پریشانی کے بغیر ایسا کرسکیں۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم نے فوری طور سے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور دن کے دوران نواز شریف اور آصف زرداری سمیت تمام قابل ذکر لیڈروں و حکومتی ترجمانوں نے عمران خان پر حملہ اور سیاسی لانگ مارچ کو تشدد کا نشانہ بنانے کی اس ناقابل معافی اور افسوسناک کوشش کی شدید مذمت کی ہے۔ اور عمران خان اور دیگر لوگوں کی مکمل صحت یابی کے لئے دلی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اسی جذبہ سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی عمران خان پر حملہ کو مسترد کیا ہے اور عمران خان کی صحت کے لئے دعائیہ کلمات کہے ہیں۔

یہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں شدید مخالفت اور تنازعہ کت باوجود تمام سیاست دان اور ادارے سیاسی سرگرمیوں کے خلاف کسی قسم کے تشدد کو مسترد کرتے ہیں اور کسی لیڈر کو قتل کرنے کا رویہ کسی بھی گروہ یا ادارے کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ملک میں سیاسی گروہ بندی، شدید نفرت اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کے طرز عمل کے باوجود، اس موقع پر سامنے آنے والا اظہار یک جہتی صورت حال کی ایسی تصویر دکھاتا ہے جو مشکلات و پریشانیوں کا شکار اس قوم کے لئے اطمینان کا باعث ہونا چاہیے۔

اس خوش نما پہلو کا بیان کرنے کے ساتھ ہی اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عمران خان جیسے قد کاٹھ کے لیڈر کی سیکورٹی پر مامور لوگوں کی گرفت ہونی چاہیے اور اس وقوعہ کے حوالے سے ان لوگوں سے جواب طلب ہونا چاہیے جن پر لانگ مارچ کے شرکا اور بطور خاص عمران خان کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اپنے وسیع تر دائرہ اختیار اور قومی اداروں کی نگران کے طور پر وفاقی حکومت کو بھی اس سانحہ پر اپنا موقف سامنے لانا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ کیا کوئی ایسی انٹیلی جنس جمع کی گئی تھی جس میں عمران خان پر حملہ یا لانگ مارچ کے خلاف کسی تشدد کی اطلاعات موجود تھیں۔

اور کیا ان معلومات کو تحریک انصاف اور حکومت پنجاب کے ساتھ شیئر کر کے کوئی ایسی منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ عمران خان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہوتا۔ افسوس اور مذمت کے بیانات کے بعد اس بارے میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو تمام صورت حال عوام کے سامنے رکھنی چاہیے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کوتاہی کہاں اور کس سے ہوئی ہے۔

یہ حقیقت نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ مبینہ حملہ آور خطرناک اسلحہ سمیت نہ صرف اجتماع میں شامل ہونے میں کامیاب رہا بلکہ وہ کنٹینر کے اتنا قریب پہنچ گیا جہاں سے وہ عمران خان پر براہ راست حملہ کر سکا۔ میڈیا میں اس حملہ آور کا ایک بیان نشر کیا جا رہا ہے جس میں وہ عمران خان کی سیاست پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے علاوہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ’اذان کے وقت لانگ مارچ کے اسپیکر استعمال کیے جا رہے تھے، جو مجھے پسند نہیں تھا‘ ۔ یوں اس نے ذاتی مخالفت کے علاوہ اپنے اس مذموم فعل کو مذہبی جذبات سے ملانے کی کوشش بھی کی ہے۔

مبینہ حملہ آور کے حوالے سے یہ معلومات بھی شائع و نشر کی جا رہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ہی ایک ایم این اے عالمگیر خان کا گارڈ تھا اور اس نے جوش میں ہوائی فائرنگ کی تھی۔ جبکہ خود عالمگیر خان نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے حملہ آور کو اپنا گارڈ بتایا ہے اور کہا ہے کہ اسے غلط فہمی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اس بڑے سانحہ کے بعد ایسی متضاد معلومات کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے تھی تاہم اس سے بھی ناقص سیکورٹی پلان کی نشاندہی ہوتی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ کسی بھی لیڈر کو اپنے مسلح گارڈ عوامی اجتماع میں لانے کی اجازت دی گئی تھی اور وہ جوش یا ہوش میں فائرنگ کرنے میں بھی ’آزاد‘ تھے۔ البتہ میڈیا میں گرفتار شخص کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا ہے جس سے بے اعتباری و بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ حقیقی صورت حال فوری طور سے منظر عام پر آنی چاہیے۔

اس دوران تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے عمران خان سے ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے جس میں وفاقی حکومت اور فوج پر اس حملہ میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ ’اس حملہ میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک فوجی افسر شامل ہیں‘ ۔

تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف سے واقعاتی تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی ملکی حکومتی شخصیات اور سینئیر فوجی افسر پر ایسے سنگین الزام کا مقصد محض سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ ماضی قریب کے واقعات شاہد ہیں کہ عمران خان سیاسی مقاصد کے لئے کسی بھی غلط بیانی سے گریز نہیں کرتے۔ اب وہ خود پر ہونے والے جان لیوا حملہ کا الزام سیاسی مخالفین اور عسکری قیادت پر عائد کر کے اپنے حامیوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

About خاکسار

Check Also

ایران اور ترکمانستان کے درمیان گیس کے میگا پروجیکٹ پر دستخط

ایران اور ترکمانستان کے درمیان گیس کے میگا پروجیکٹ پر دستخط ایران اور ترکمانستان نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے