Breaking News
Home / دسته‌بندی نشده / ولایت و مرجعیت کے حامی و مخالفین خبردار!

ولایت و مرجعیت کے حامی و مخالفین خبردار!

ہم عالم اسلام اور عالم تشیع میں دیکھتے ہیں تو ایسی بہت سی شخصیات ہیں جن کا ہیرو، مثالی شخصیت، عالی نمونہ، پیر و مرشد کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی شخصیات کی کوئی کمی نہیں ہے اور دینی حوالے سے ہمارے مراجع تقلید، علماء، شہداء وغیرہ ہمارے لئے ہیرو کا رتبہ رکھتے ہیں اور پھر مرجعیت کے ساتھ ساتھ ہمارے اس دور میں مصداق پیدا کرنے والے نظریۂ ولایت فقیہ نے مثالی شخصیت کے تعین کا کام مزید آسان کردیا ہے۔

تحریر: ف- ح- مہدوی

تسنیم خبررساں ادارہ: اس دنیا مین انبیاء، اولیاء، شہداء، صدیقین، احرار اور اقطاب کی کوئی کمی نہیں ہے، کوئی کمی نہیں۔ کوئی کسی نبی کا حامی بنتا ہے، کوئی کسی کا مرید یا عقیدتمند ہوجاتا ہے؛ کوئی کسی شہید کو مثالی کی شخصیت بنا کر اس کے نقش قدم پر چلنا اپنی مقصد بنا لیتا ہے۔ کوئی کسی صدقی کی صداقت اور وفاداری کا دلدادہ ہوجاتا ہے، کوئی کسی وارستہ اور غیراللہ کی قید سے آزاد انسان کی اطاعت کو اپنا ہدف زندگی بنا دیتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی لوگ افسانوی شخصیات کے پیچھے چلتے ہیں، کھلاڑیوں، فلمی ستاروں، سیاستدانوں سائنسدانوں یا حتی کہ قاتلوں یا ڈاکؤوں تک کو اپنا ہیرو بنادیتے ہیں۔

اور اس حقیقت سے ثابت ہوتا ہے کہ "ہیرو”، "محبوب شخصیت”، "مثالی شخصیت”، "عملی نمونہ” وغیرہ کا تعین انسانی فطرت کا تقاضا ہے چنانچہ خداوند متعال نے انبیاء اور اولیاء بھیج کر اور اقطاب و ابدال، علماء، شہداء اور صالحین کے لئے قواعد و ضوابط اور راہ و روش کا تعکن فرما کر انسانوں کی یہ پیاس مٹانے کا بندوبست کیا؛ اور اگر کوئی شخص مقربین کے سوا کسی اداکار، پہلوان، کھلاڑی اور گویے کو اپنا ہیرو بنا لیتا ہے تو یہ خاندانی اور معاشرتی تربیت کا نتیجہ ہے۔

ہم عالم اسلام اور عالم تشیع میں دیکھتے ہیں تو ایسی بہت سی شخصیات ہیں جن کا ہیرو، مثالی شخصیت، عالی نمونہ، پیر و مرشد کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی شخصیات کی کوئی کمی نہیں ہے اور دینی حوالے سے ہمارے مراجع تقلید، علماء، شہداء وغیرہ ہمارے لئے ہیرو کا رتبہ رکھتے ہیں اور پھر مرجعیت کے ساتھ ساتھ ہمارے اس دور میں مصداق پیدا کرنے والے نظریۂ ولایت فقیہ نے مثالی شخصیت کے تعین کا کام مزید آسان کردیا ہے۔

نظریہ ولایت فقیہ ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے دور میں پیش کیا گیا تھا لیکن اس کو مصداق پیدا کرنے میں صدیوں کا وقت لگا اور بیسویں صدی عیسوی کے ربع آخر (اور چودھویں صدی ہجری کے بالکل آخری برسوں میں) کامیاب ہوا۔

امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے مغرب و مشرق کے رائج و حاکم سیاسی و سماجی نظریات اور فلسفوں کو عملی طور پر رد کردیا ایسے دور میں دینی انقلاب برپا کیا جب مغرب دین کو کلیساؤں تک محدود کردیا گیا تھا اور مشرق میں کلیسائیں بھی بند ہوئی تھیں اور عمومی خیال یہ تھا کہ مسجدیں بھی کلیسا کی متابعت کریں گی۔

امام نے مسجد کی عظمت کا اثبات عملی کرکے عملی طور پر دنیا کو بتایا کہ دین اسلام قدیمی ادیان کی طرح مرا ہوا نہیں ہے۔ سو امام خمینی رحمۃاللہ علیہ بہت سے مسلمانوں اور غیر مسلم حریت پسندوں کے لئے زندہ مثال اور قابل اتباع نمونہ عمل بن گئے اور آج بات یہاں تک پہنچی ہے کہ مشرق وسطی مغرب کی پوری قوت صرف ہورہی ہے۔ سرد جنگ کا پورا بجٹ اس علاقے میں خرچ ہورہا ہے مگر امام خمینی رحمۃاللہ علیہ سے عملی نمونے حاصل کرنے والی اقوام مغرب اور اسرائیل کی جانب سے بنائی ہوئی رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے ہٹا رہے ہیں۔ مذکورہ مثال معاشرتی مثال ہے اور یہ مسئلہ انفرادی سطح پر موجود تھا، ہے اور رہے گا اور امام رحمۃاللہ علیہ کا عشق مسلسل بڑھتا رہے گا۔ جبکہ دوسری جانب سے یہی عشق ایک دوسری شکل میں بھی جاری ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای، امام رحمۃ اللہ علیہ کے خلف صالح ہیں جو ان کا پرچم مضبوطی سے اٹھائے ہوئے ہیں اور امام رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور چونکہ امام خامنہ ای بھی مجتہد اور مرجع تقلید ہیں اسی لئے لوگوں کا ان کی طرف رجحان دونوں پہلؤوں سے ہے۔

گویا ولایت فقیہ اور مرجعیت نے انہیں مقبول اور محبوب بنا دیا ہے اور جب ان کی کیاست، ذکاوت، معاملہ فہمی، بروقت اقدام، بروقت اعلان موقف، آج کے مسائل کے بہترین فقہی جوابات وغیرہ ایسی صفات ہیں جن کی وجہ سے انہیں بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح مثالیت، مرادیت، مرشدیت اور عمومی مقبولیت (ہردلعزیزی) حاصل ہے۔ فداکار لوگوں کے لشکر ان کے حکم کے منتظر ہیں۔ اسی طرح بعض ملکوں میں شاید بعض دیگر اقوام و افراد کے ہاں مرسوم اوصاف و خصوصیات، دینی اور سماجی قواعد کے پیش نظر، ان کی مثالی شخصیات مختلف ہوں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بزرگ انسانوں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے مفادات کو نقصان بھی پہنچتا جس کی وجہ سے ایسے لوگ ان کے دشمن بنتے ہیں۔ کجھ لوگ دشمن نہیں ہوتے تو ان کے پاس دوستی کا بھی کوئی محرک نہیں ہوتا، کچھ لوگوں کے مرشد و مراد مختلف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کے مرشد کی پیروی نہیں کرتے، لہذا وہ نہ دشمن ہوتے ہیں اور نہ ہی دوست۔ اور یہ وہ حالت ہے جہاں مرید اپنے مراد کا، مقلد اپنے مرجع کا، تابع اپنے مرشد کا اور متولی اپنے مولا کا، دفاع کرتا ہے۔ کبھی یہ دفاع مفید ہوتا ہے اور کبھی اس کا نقصان فائدے سے کہیںزیادہ ہوتا ہے۔ اور یہ مسئلہ دفاع کی روش پر منحصر ہے۔

افراط موجب تفریط ہے

مرشد و مراد کے ساتھ جذباتی وابستگی اس صورت میں افراط اور نامعقولیت میں تبدیل ہوتی ہے جب:

1۔ جب انسان ان قواعد سے ناواقف ہے جن کے ہوتے ہوئے مطلوبہ شخصیت اس مقام و منزلت پر پہنچی ہے۔

2۔ بطور مثال اگر دفاع ولی فقیہ کا ہورہا ہے تو دفاع کرنے والا شخص ان معیاروں سے ناواقف ہو جن کے ہوتے ہوئے، ولی فقیہ اپنا منصب سنبھالے ہوئے ہیں اور اس منصب میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

3۔ کم ظرفی بھی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان ولی امر مسلمین سے سبقت لیتا ہے۔ مثلاً اگر ولی امر مسلمین بعض خاص معیاروں، قواعد اور امت کی مصلحتوں کے تحت یا دینی احکام کی روی سے کسی شخص کی تأئید بھی کرے، تو یہ مدافع محترم ان کی اعلانیہ مخالفت کرتا ہے یا حتی کہ ان کے اوپر بہتان تراشی یا پھر دشنام تراشی تک کا سہارا لیتا ہے۔

افراط اور زیادہ روی کے نتیجے میں انسان ـ جو ابتدائی طور پر خالصتاً للہ سلک ولایت میں وارد ہوا ہے ـ آخر کار اپنے خیالات اور اپنی شخصیت ولی امر مسلمین کے دفاع کے نام پر، حق و باطل کا معیار اور ولایت، شرافت اور حقانیت کا معیار و محور قرار دیتا ہے۔ زبان سے خودپرستی کی مذمت کرتا ہے اور عمل میں خودپرستی کی حضیض میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ افکار و موقف اور اظہار خیالات میں تضاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے سوا دوسروں کو گمراہ سمجھنے لگتا ہے، دوسروں کے برے اعمال کو اسلام کے اخلاقی اقدار کے تحت برا سمجھتا ہے اور خود اسی اثناء میں ان ہی اعمال کا مرتکب ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر کسی شخص کو گالی دیتے ہوئے دیکھتا ہو تو اس کی مذمت کرتے ہوئے اسی طرح کی یا اس بھی کہیں زیادہ فحش گالیاں اس کے نثار کرتا ہے، اور آکر کوئی اعتراض کرے تو اس کو لڑنے جھگڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے معیار، ذاتی ہوتے ہیں اور ولایت کے اصول و فروع سے ماخوذ نہیں ہوتے۔ بہتان تراشی، دشنام طرازی اس حد تک اس کے لئے معمول اور عادت ہوجاتی ہیں کہ اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔ وجدان اور ضمیر بھی نادانی کی گرد تلے دب جاتا ہے، نفس لوامہ (اور ملامت کرنے والا اور برے اعمال سے منع کرنے والا نفس) ہدایت و راہنمائی کا فریضہ چھوڑ جاتا ہے لہذا فطرت اولیہ مزید برائیوں کی یادآوری نہیں کراتی اور اس کو اپنی اصلاح کی دعوت نہیں دیتی؛ اور یہ مرحلہ وہ ہے جہاں انسان کو شر اکے مجسمے میں تبدیل ہونے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ اور یہاں اس کو نظری تعلیمات کی ضرورت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ تھوڑا آگے جا کر لوٹنے، توبہ کرنے اور استغفار کرنے کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ جبکہ خود اس کو یہ احساس نہیں ہوتا اور دلدل میں ڈوبنے والے انسان میں انسان کی طرح غیرمحسوس انداز سے بداخلاقی کے دلدل میں دہنستا چلا جاتا ہے اور صرف خدا ہی اس کی مدد کرسکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے ہمدردوں اور دوستوں کو اپنے گرد کھینچے ہوئے دائرے سے نکال کر کھودیتا ہے اور دوست و ہمدرد چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ بلکہ وہ خود بھی ایسے شخص کی طرف سے مختلف الزامات اور بہتان تراشیوں حتی گالی گلوچ کا نشانہ بنتے ہیں۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ مثلاً ولی فقیہ اپنے دور میں عملی طور پر کسی کے آمنے سامنے کھڑا ہو، ضروری نہیں ہے کہ اس کا کوئی حریف یا رقیب یا مخالف ایسا ہو جو اس کی نفی کرتا ہو یا اس مخالف کا وجود کسی بھی عنوان سے ولی امر یا کسی بھی مثالی شخصیت کے لئے دھمکی آمیز ہو بلکہ معمول کی بات یہ ہے کہ حامی حضرات اپنے چھوٹے سے ذہن میں اپنی مثالی شخصیت کے لئے مختلف قسم کے حریف اور دشمن تراشتے اور فرض کرتے ہیں اور پھر ان کو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ ولی امر کی اطاعت کی بات کرتے ہیں، نظری حوالے سے ہوسکتا ہے کہ ان کا نظریہ یہ ہو کہ سب کے افعال و اعمال کو ولی امر کے افعال و اعمال و احکام و تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے مگر دفاع کے وقت یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ جن کو وہ برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ وہ نہ صرف ان کے عالیقدر محبوب کے دشمن نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع کو ان کو محبوب قلوب کی حمایت بھی حاصلی رہی ہے۔ اور ولی امر کے احکام اور ان تعلیمات ہی انسانوں کے اعمال و کردار کا معیار ہو تو یہاں یہ حضرات نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ ولی کی حمایت حاصل کرنے والی شخصیات کو سب و شتم کا ہدف بنایا گیا ہے۔

جب یہ تضاد دیکھنے والوں کو معلوم ہوجاتا ہے تو کچھ لوگ اسی وقت ولی امر سے دوری اختیار کرکے ان افراد سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور افراط سے تفریط جنم لیتی ہے۔ کچھ لوگ ان کے اس عمل کی مذمت کرکے اس کو ولی امر کے لئے نقصان دہ قرار دے کر، ان افراد کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور مایوس ہوکر ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو اس طرح ولایت کو نقصان پہنچتا ہے اور خودسر و خودمحور افراد بھی تنہا ہوجاتے ہیں۔

افراط سے تفریط جنم لیتی ہے وہ یوں کہ افراط کرنے والے (انتہاپسند) افراد بہرحال افراط کرتے کرتے، تھک جاتے ہیں کیونکہ افراط انسانی فطرت کے خلاف ہے اور جو عمل عادت کی وجہ سے انسان کے رویوں میں اچکا ہے وہ بعض افراد کو آگے جاکر تفریط میں مبتلا کردیتا ہے۔ بطور مثال اگر کسی شخص کو اچانک اور بلا تمہید وعد و وعید کے ذریعے واجبات اور مستحبات دلائی جائے اور علم و آگہی پر منبی ماضی کے تجربے کے بغیر ہی تمام واجبات و مستحبات، نوافل، نماز وغیرہ کی طرف رخ کرے اور اپنا پورا وقت ان اعمال کے لئے وقف کرے اور خدا کی اطاعت میں افراط اور زیادہ روی کی راہ پر گامزن ہوجائے تو چونکہ اس افراط کی بنیاد علمی اور عقلی اور تجرباتی نہیں ہے اسی لئے وہ تھک ہار کر پنجگانہ نماز تک کو ترک کردیتا ہے اور رمضان کے روزے سے گریز کرنے لگتا ہے۔ یہ البتہ زیادہ روی اور افراط کا شخصی عارضہ ہے جو ہوسکتا ہے احتماعی عوارض کا سبب بھی بنے اور اس شخص کے زیر اثر دو چار افراد کو بھی گمراہ کردے مگر یہ بہر حال یہ افراط کا انفرادی عارضہ سمجھا جاتا ہے۔

افراط کا معاشرتی عارضہ

افراط کا ایک معاشرتی منفی اثر یہ ہے کہ انسان آخرکار تھک جاتا ہے؛ افراط غیر علمی جذبہ ہے اور غیر علمی جذبہ طویل عرصے تک قائم نہیں رہتا۔ اس حقیقت کی ایک اہم مثال ایران میں انقلابی اسلامی کے انتہاپسند حامیوں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے جنہوں نے ابتدائے انقلاب میں امریکہ کے ساتھ تمامتر تعلقات توڑنے پر اصرار کیا، امریکی سفارتخانے پر قبضہ کیا، سفارتکاروں کو یرغمال بنایا، 1990 میں اپنے دشمن صدام کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور تیل کی جنگ میں صدام کے حق میں امریکہ کے خلاف جنگ میں کودنے کا مطالبہ کیا اور صرف پانچ سال بعد ان کی پالیسیاں بدل گئیں اور آج وہ مکمل مغرب نواز حتی کہ اسرائیل نواز اور ایرانی قوم پرستوں کی صورت میں تبدیل ہوچکے ہیں اور اسلامی انقلاب کے خلاف سازشیں کررہے ہیں اور ان کے کئی اہم افراد برطانیہ اور امریکہ میں بیٹھ کر اسلامی انقلاب کے خلاف تشہیری مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

افراط کا معاشرتی اور اجتماعی عارضہ، معاشرے کی گمراہی، اور تمام زیر اثر یا متاثرہ افراد کی تفریط کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

اگر آپ کسی شخص کا دفاع کرتے ہوئے اپنے خیال میں ـ اس شخص یا شخصیت ـ کے فرضی مخالفین یا رقباء یا ہم سطح شخص کو سب و شتم کا نشانہ بنائے تو ان شخصیات کے عقیدتمند افراد پر اس عمل کا اثر معکوس ہوتا ہے۔ مثلا اگر آپ کے پاس دین و مذہب کا علم ہے، منطق ہے، آپ کے پاس علمی، منطقی، ثقافتی، تہذیبی اور دینی سرمایہ ہے اور آپ کسی کو قائل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسی سرمائے سے استفاد کرکے اپنے نظریئے کی حقانیت ثابت کرنی چاہئے، اپنے عقیدے کا تعارف کرانا چاہئے۔ کیونکہ اگر کوئی شخصیت یا اس کا نظریہ برا ہو تو اس کی برائی سے آپ کی اچھائی ثابت نہیں ہوتی۔ آپ بیٹھ کر کئی افراد کے سامنے زید، عمرو، بکر کی برائیاں بیان کرتے ہوئے ایک دن، ایک مہینہ یا ایک سال یا پھر پوری عمر بھی گذار دیں، ایک سوال پہلے دن کی مانند باقی رہتا ہے۔ وہ یہ کہ ٹھیک ہے کہ زید، عمرو یا بکر برا ہے لیکن آپ خود کیا ہیں؟ آپ کی حقانیت کا ثبوت کیا ہے؟ البتہ یہ اس وقت کی بات ہے کہ آپ دشنام و الزام ترک کرکے مذکورہ افراد کی برائی معقول اور منطقی انداز میں بیان کرتے رہتے ہوں؛ کیونکہ دشنام و الزام کی صورت میں آپ کی بات طویل عرصے تک نہیں سنی جاسکتی۔

تعارف کیسا ہونا چاہئے

علم کی ضرورت

تعارف کرتے ہوئے آپ کسی فرد، کسی قوم اور کسی مکتب یا جماعت کی اچھائیاں، فضیلتیں، برتریاں، مثبت اوصاف و خصوصیات اور اس کے ساتھ وابستگی کے فوائد اور منافع بیان کریں تب جاکر آپ کا سامع دو یا دو سے زیادہ افراد، اقوام یا مکاتب کے درمیان انتخاب کرنے کا قابل ہوجاتا ہے؛ اور بغیر اس کے، کہ آپ مخالف افراد یا مکاتب کی برائیاں بیان کریں، سامع خود ہی موازنہ کرکے آپ کی مطلوبہ شخصیت یا مکتب کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے لئے آپ کے پاس علم، منطق، ادب و اخلاق اور مثبت ذاتی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ آپ اگر علم کے ہتھیار سے لیس نہ ہوں تو بحث کے دوران اپنے مخالف فرد کے سامنے درماندگی کا شکار ہوکر لاجواب ہوجائیں گے، اس کے علمی استدلال پ اس کا جواب دہیں دیے سکیں گے اور بجائے اس کے کہ اس کو قائل کریں، خود ہی کمزور ہو کر شکست سے دوچار ہونگے اور یا تو اس کی بات ماننی پڑے گی یا بحث ملتوی کرنی پڑے گی اور ایک تیسری صورت یہ ہے کہ آپ اس محفل کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔

ان تین صورتوں میں دو صورتیں "تسلیم اور قائل ہوا یا بھاک جانا” نہایت خطرناک صورتیں ہیں جن کو مطلق شکست بھی کہا جاسکتا ہے؛ خطرناک اس لئے ہے کہ آپ کا مدعا حق ہے لیکن آپ حق کا دفاع نہیں کرسکے ہیں اور حق کے چہرے کو مخدوش کرچکے ہیں۔ لہذا جب آپ علم کے ہتھیار سے محروم ہیں تو علمی رزمگاہ میں جانے سے اجتناب کریں کیونکہ آپ کا یہ اجتناب خواہ مکتب کے لئے مفید نہ بھی ہو، مضر بھی نہیں ہوگا۔ بالفاظ دیگر لاعلمی کی صورت میں اترجانا مکتب کے لئے نقصان دہ ہے جبکہ اجتناب کرنا اگر مفید نہ ہو تو کم از کم نقصان دہ بھی نہیں ہے۔

منطق کی ضرورت

منطق نہ ہو تو آپ اپنے مدعا کی صحیح بنیاد بنا کر، صغری و کبری ترسیم کرنے میں مشکلات کا شکار ہونگے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا۔ حتی اگر آپ چاہیں کہ احتجاج یا استدلال کی بجائے جدل کا راستہ اپنائیں اور اپنے مقابل شخص کی روش کے پیش نظر، اس کو قائل کرنے کی بجائے، شکست دینا اور حیرت زدہ کرنا یا خاموش کرانا چاہیں، پھر بھی آپ کو منطق کی ضرورت ہے، اگر آپ اس شخص کے اپنے عقائد کا حوالہ دے کر، اس کے عقائد کا اپنے عقائد کے ساتھ موازنہ کرکے اپنی حقانیت کے اثبات کی ضرورت کے طور پر استعمال کرنا چاہیں، پھر بھی منطق کی ضرورت ہوگی۔ پس اگر آپ منطق کی قوت سے محروم ہیں تو بحث و جدل کو اہل منطق کے سپرد کریں۔

مراجع تقلید ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں

کسی کی مذمت کرنے کے لئے بھی یہ سارے اوصاف ضروری ہیں۔ خودسازی (تعمیر نفس) سب پہلی ضرورت ہے کیونکہ آپ تب ہی کسی کے بارے میں منصفانہ فیصلہ کرسکتے ہیں جب آپ خودسازی کے مرحلے سے گذر چکے ہوں ورنہ ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات ہمیں عدل و انصاف سے دور کرتی ہیں۔

جس شخص کے خلاف بولنا چاہتے ہیں اس کے علم کا اندازہ لگانا چاہئے، اس کے اوصاف معلوم ہونے چاہئیں اور اگر اس کا علم اس کی شخصیت آپ کی علمیت اور شخصیت سے زیادہ ہے تو توقف کرنا چاہئے ورنہ گناہ کا احتمال ہے؛ کیونکہ جس بات کی بنا پر آپ اس کی مذمت کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے خیال میں بری بات نہ ہو اور اس کے علم سے اس کی حقانیت ثابت ہو۔

اگر آپ کے مکتب کا تعارف کسی کی مذمت کسی کی مذمت کا محتاج نہ ہو تو کسی کی مذمت نہ کریں۔ اور اپنے مکتب کے اچھائیاں بیان کریں اور جب آپ کے مکتب کی حقانیت ثابت ہوجائے گی تو اس کے مخالف مکاتب اور افکار کا بطلان خود بخود ثابت ہوجائے گا؛ بعض اہل فکر کا کہنا ہے کہ "آپ تولا کا حق ادا کریں تو تبرا کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ آپ عملی تولا کے ذریعے اپنے مکتب کی حقانیت ثابت کرتے ہیں اور آپ کے لئے اور آپ کے مکتب کے لئے یہی کافی ہے اور آپ کا مکتب آپ سے یہی توقع رکھتا ہے۔

مراجع تقلید اور علمائے جلیل القدر، جن کو ائمۂ طاہرین علیہم السلام کی نظری پشت پناہی حاصل ہے، اور کسی بھی مرجع نے دوسرے کسی مرجع کی مذمت نہیں کی ہے، اور ولایت امر مسلمین نے بھی مختلف مواقع پر ان کی تعریف و تمجید کرکے ہم سب کو نامعقول اقدامات سے روکا ہے اور ہم خود اس مقام پر نہیں ہیں کہ ائمۂ طاہرین علیہم السلام کی احادیث اور ولی امر مسلمین کے احکام و اقوال کو منسوخ کرکے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط مکتب کے اصول قرار دیں۔

علماء اور روحانیت کو برا بھلا کہنا اور اپنے اس عمل کو روحانیت اور رہبر یا اسلامی انقلاب و ولایت فقیہ کی متابعت کا نام دینا بالکل غلط اور رہبر عالیقدر اور شہدائے ولایت پر ظلم و جفا ہے۔

انسانی مسکن کے حوالے سے کوئی زمین دوسری پر فوقیت نہیں رکھتی

پوری ملت جعفریہ کو برا بھلا کہنا، اپنی سرزمین کو غیر صالح، غیر صحتمند اور نا اہل انسانوں کی پرورشگاہ قرار دینا کسی بھی اسلامی حکم سے مطابقت نہیں رکھتا۔

خدا نے مکہ، مدینہ، کربلا، نجف اور قم و مشہد کو فضیلت عطا فرمائی لیکن یہ تعریف خدائی تعریف ہے جو معصومین علیہم السلام کی زبان سے صادر ہوئی ہے اور یہ میری اور آپ کی بنائی ہوئی تعریف نہیں ہے، جس کے لئے مفہوم کا تعین ہمیں کرنا پڑے اور مثال کے طور پر کہہ دیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دوسری تمام زمینیں مذموم، نجس، منحوس، نا اہل، بے صلاحیت و غیر زرخیز ہیں؛ کیونکہ آیات و احادیث سے ثابت ہے اور عقل بھی تسلیم کرتی ہے کہ پوری زمین ہی نہیں بلکہ پوری کائنات اللہ کی ہے۔

سورہ کہف کی آیت 56 میں ارشاد ربانی ہے: میرے ایمان والے بندو! میری زمین وسیع و عریض (یا بخش دینے والی اور سخی) ہے، تم جہاں بھی ہو (روئے زمین کے جس حصے میں بھی ہو) اخلاص کے ساتھ میری بندگی کرو؛ اور سورہ شوری کی آیت 5 میں ارشاد ہوتا ہے کہ ملائکہ زمین پر رہنے والوں کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں۔ اور اس آیت میں پوری زمین شامل ہے اور کسی خاص سرزمین کو دوسری سرزمینوں پر اولویت نہیں دی گغی ہے۔ اسی طرح کئی آیات میں بیان ہوا ہے کہ زمین اور آسمانوں کی حکمرانی اللہ کے لئے ہے، وہ تمام آسمانوں، زمین اور ان میں بسنے والی مخلوقات کا رب اور پروردگار ہے۔ زمین میں یقین کرنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ آسمان اور زمین کی میراث خدا کے لئے ہے۔ بعض آیات میں انسان کو روئے زمین پر خدا کا خلیفہ قرار دیا گیا ہے جس میں سرزمین کی قید موجود نہیں ہے۔ بعض آیات میں وعدہ دیا گیا ہے کہ روئے زمین پر مستضعفین کو وارث قرار دیا جائے گا ان میں بھی جغرافیائی حدود کی قید نہیں ہے۔

فرمایا: "وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ” (سورہ انبیاء آیت 105)

ترجمہ: اور بے شک ہم نے زبور میں ذکر (تورات) کے بعد بھی یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے ورثہ دار میرے نیک بندے ہوں گے۔

لہذآ انسانوں کے مسکن کے عنوان سے کوئی زمین کسی دوسری زمین پر فوقیت نہیں رکھتی اور کسی بھی سرزمین کے رہنے والے انسان ہدایت پا کر، عبادت کرکے، صالحین و متقین اور شہداء و صدیقین میں زمرے میں آسکتے ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام مالک اشتر کے نام اپنے خط میں میں مرقوم فرماتے ہیں: لوگوں کے دو گروہ ہیں: ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو تمہارے دینی بھائی ہیں، اور دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے (جو اگرچہ مسلمان اور مؤمن نہیں ہیں مگر کم از کم) خلقت میں تمہاری مانند ہیں۔ اگر وہ گناہ کریں یا کمزوریاں ان عارض ہوجائیں تو پھر غلطی سے کوئی خطا ان سے سرزد ہوجائے ان کو بخش دو اور ان سے نرمی برتو۔ جیسا کہ تم چاہتے "کہ خدا تمہیں بخش دے، تم سے نرمی برتے”۔ (نہج البلاغہ خط نمبر 53)

اس مراسلے کی تشریح علماء نے وضاحت کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہوئے کہ: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس مراسلے میں دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں کی برابری پر تاکید فرمائی ہے اور یہ جغرافیائی حدود سے فارغ عالمی شہریت یا جگ دیسی یا کاسمو پولیٹنزم (Cosmopolitanism) کا عینی مصداق ہے۔

زمین خدا کی ہے، انفال خدا کے ہیں، جنگل، دشت و صحرا، پہاڑ وغیرہ، سب خدا کے ہیں اور امامیہ کے اعتقاد کے مطابق جب امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ تعالی فَرَجَهُ الشریف) تشریف لائیں گے اور ظہور فرمائیں گے، ان میں تصرف کے حقدار ہونگے، پوری دنیا کا تمام پانی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مہر تصور کیا جاتا ہے؛ چاہے دریاؤں، ندیوں، چشموں،جھیلوں یا بارش کا پانی ہو یا بڑے بڑے بحروں، بحیروں یا خلیجوں وغیرہ کا پانی ہو۔

اور قول مشہور ہے کہ ہر زمین کربلا اور ہر دن عاشورا ہے، ہر زمانے اور ہر سرزمین کے تمام بچے فطرت اسلام پر متولد ہوتے ہیں اور ان کے والدین انہیں یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

لہذا کوئی قوم یا کوئی سرزمین فطرةً لادین یا لامذہب یا منافق یا کافر نہیں ہے۔

ابوجہل سرزمین مکہ کی پیداوار تھا، سلمان اصفہان یا پھر رامہرمز میں پیدا ہوا تھا

، اقیال سیالکوٹ کی پیداوار ہیں، سعد سلمان لاہور میں پیدا ہوئے ہیں، عبقات الانوار کے مصنف حامد حسین ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں، سیدعارف حسین پاکستان میں، سید عباس موسوی، شیخ راغب حرب اور سید حسن نصرااللہ لبنان میں پیدا ہوئے ہیں۔ کسی ایک سرزمین میں مختلف قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں، ایک ہی خاندان میں محسن اسلام، مؤمن قریش حضرت ابوطالب اور ابو لہب ہوسکتے ہیں اور ایک ہی سرزمین پر کئی وطن پرست، معتقد افراد کے ساتھ ساتھ وطن کے غدار اور وطن فروش اور بدعقیدہ لوگ ہوسکتے ہیں اور ہر سرزمین میں اچھے اور عظیم انسانوں کی پیدائش اور پروان چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لہذا کسی قوم یا کسی سرزمین پر کوئی الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

مرجعیت

مرجعیت تشیع کی جڑ اور تشیع کے تحفظ کی بنیادی طاقت ہے۔ ایران اور عراق میں مرجعیت کی تاریخ گواہ ہے کہ مذہب تشیع کو متفق و متحد رکھنے اور اس کی سرزمینوں کو استعماری طاقتوں کی بلاواسطہ حکمرانی سے بچانے اور حکومتوں کو دین کی مخالفت سے روکنے میں مرجعیت نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی علماء کی تاریخ میں کم ہی کوئی مثال ملتی ہے۔ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے مرجع تقلید کی حیثیت سے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور کفر و شرک و استعمار کو ایران سے نکال باہر کرکے قوموں کو امریکہ اور صہیونیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی اعلانیہ مخالفت اور ان کے خلاف انقلاب بپا کرنے کا حوصلہ عطا کیا اور پورے اسلام کو پورے کفر کی دستبرد سے محفوظ کیا اور نہ صرف مسلم نوجوانوں کو مشرقی اور مغربی ثقافت سے متاثر ہونے کی بجائے مساجد کی راہ دکھائی حتی کہ مغربی دنیا میں بھی معنویت کو زندہ کیا اور آج بھی ایک مرجع تقلید ہی ان کا پرچم سنبھالے ہوئے ہیں اور استکبار کے روبرو کھڑے ہوکر ان کو مختلف محاذوں پر پسپا کررہے ہیں۔

عاشورا، مہدویت اور مرجعیت کو مذہب تشیع کی دائمی حیات کے تین عناصر قرار دیا گیا ہے اور ان تینوں عناصر پر دشمنان اسلام کی عجیب یلغار خود اسی بات کی دلیل ہے کہ پیروان اہل بیت (ع) کو کسی صورت میں بھی ان تینوں عناصر کا دامن تھامے رکھنا چاہئے۔

دنیا میں تشیع کے خلاف خاص قسم کی سازشیں جاری ہیں اور کروڑوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں جن کے ذریعے ایک طرف سے دہشت گردوں کے درجنوں گروہ امریکہ اور یہود و ہنود کو مرجع قرار دے کر شیعیان اہل بیت (ع) کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور حکومتوں کو بھی حکم ہے کہ انہیں دہشت گرد سمجھ کر قابل گرفت قرار نہ دیں، ان پر مقدمے نہ چلائیں انہیں گرفتار نہ کریں اور گرفتار دہشت گردوں کو کسی بھی ممکنہ طریقے سے رہا کریں یا بھگا دیں اور عدالتوں سے بری کروا دیں۔ دوسری طرف سے بعض ذاکرین اور ان پڑھ افراد کو منبروں پر بٹھایا گیا ہے اور وہ تمام ان چیزوں کو عزاداری کا حصہ بنا رہے ہیں جو تشیع کی بدنامی کا باعث ہورہی ہیں اور عاشورا سمیت مرجعیت کو مغربی سازش کے عین مطابق، نشانہ بنارہے ہیں اور نت نئے عقائد کی ترویج کررہے ہیں اور حتی کہ نماز تک کی تحریف میں مصروف عمل ہیں اور اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں اپنی قوت صرف کررہے ہیں؛ یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں کو کبھی بھی دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ یہ لوگ ان ہی لوگوں کے ایجنٹ ہیں جن کی خدمت پر دہشت گرد بھی مامور ہیں۔

با ایں ہمہ، اگر دنیا کی سطح پر ان تمام سازشوں کے باوجود کہیں شیعہ یگانگت کے آثار دکھائی دے رہے یا اگر کفر و شرک کی سرمایہ کاری اور وہابیت کی تمامتر کوششوں کے باوجود شیعہ اور دوسرے اسلامی مکاتب کے پیروکاروں کے درمیان جنگ کی صورت حال نہیں ہے تو یہ سب مرجعیت کی برکت سے ہے اور آج شیعہ مرجعیت پورے عالم اسلامی اور پوری مسلم امہ کا تحفظ کررہی ہے۔

اگر آج کوئی بھی کسی بھی مرجع کے خلاف بدزبانی کرے، وہ دانستہ یا نادانستہ، تشیع کے خلاف صہیونی سازش کا حصہ ہے، کیونکہ اس طرح مرجعیت کی عزت و حیثیت پر حرف آتا ہے، اگر حق و ناحق بتانا ہو تو علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

اہل حق کو پہچاننے کے لئے، پہلے حق کو پہچانو، اور پہلے باطل کو پہچانوگے تو اہل باطل کو بھی پہچان سکوگے۔ لہذا لوگوں کو بتانا پڑے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ یہ عقیدہ ہر مسئلے اور ہر موضوع میں جاری ہوسکتا ہے۔ بحث و جدل اور مناظرے میں یا تقریر و تحریر میں۔ اسی قاعدے کو اولویت اور فوقیت دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگرچہ خدا نے ہمیں بولنے اور لکھنے کی صلاحیت عطا فرما‏ئی مگر اس نے ہمیں کسی کا مالک نہیں بنایا ہے۔

یہ ہمارا حق نہیں کہ کسی کو اپنی طرح سوچنے پر مجبور کریں۔ لہذا لوگوں کو حق و باطل کی شناخت کرانا ہمارا فرض ہے اور یہ فیصلہ کرنا لوگوں کا حق و اختیار ہے کہ حق و باطل کا تعین کریں؛ لہذا جہاں یہ بات بالکل واضح ہے اور آشکار ہے کہ کسی کی شخصیت پر حملہ ہمارے مکتب کے لئے نقصان دہ ہے وہاں اپنے نظریئے کی تعریف، اس کا تعارف، اس کی خصوصیات کا تعارف، نئے دور سے اس مکتب اور اس نظریئے کی مطابقت کو واضح کرنا، نئے دور کے تقاضوں سے اپنی مثالی شخصیات کی تعلیمات و احکام کے تناسب و تطابق کی تشریح، ہی ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ اصولوں، ضوابط، قواعد، خصوصیات، تعلیمات و احکام و غیرہ کا تعارف کراکر بہتر اور بہترین کے درمیان فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیں۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مرجع کی تقلید واجب ہے اور تقلید کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے اور آج کے دور کے جتنے بھی صاحب رسالہ مراجع ہیں۔ موجودہ تمام معیاروں کے مطابق اس سب کی تقلید جائز ہے۔ گو کہ جہاں مرجعیت اور ولایت فقیہ یکجا ہوں تو تقلید کی فضیلت، اور اعمال کے بدلے ثواب میں دوسرے مراجع کی نسبت، اضافہ اور بہتری یقینی ہے۔ مگر دوسرے مراجع کی تقلید بھی صحیح ہے کیونکہ مجتہدین اور اہل علم و فن نے ان کی تأئید و تصدیق کی ہے۔

ہمارا اپنا بنایا ہوا کوئی بھی قاعدہ صرف اس وقت صحیح ہوسکتا ہے کہ مستحکم علمی، منطقی، شرعی اور عقلی پر استوار ہو اور قرآن و سنت نبی و ائمہ (علیہم السلام) سے متصادم نہ ہو۔

مرجع کی اعلمیت اور دیگر برتریوں کی تشخیص کا حق صرف ان کے ہم رتبہ مجتہدین کو حاصل ہے۔ پس ہم نے یہ حکم ائمہ طاہرین علیہم السلام سے وصول کیا ہے کہ "جو فقہاء اور مراجع تقلید کو رد کرے اس نے ہمیں رد کیا ہے”۔ اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ صاحب رسالہ مراجع سارے کے سارے فقیہ ہیں اور یہ حکم ان سب کے لئے ہے مگر یہ کہ کسی کی گمراہی اور انحراف آشکار ہو۔

اور پھر اگر کوئی شخص ـ جو کہ مرجعیت کا حامل ہے ـ گمراہ ہوجائے، تو سب سے پہلے مراجع اور مجتہدین اس کی تکذیب اور تردید کریں گے لہذا ہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے بزرگ علماء اور مراجع سے آیک قدم آگے چلیں اور ان کی جگہ فتوی دیں اور جبکہ ان میں سے کسی نے کسی کی مذمت نہیں کی بلکہ سب کو ایک دوسرے کی حمایت حاصل ہے اور ولی فقیہ نے بھی ان سب کی تأئید فرمائی ہے، لہذا ہم کو متعہد ہونا چاہئے کیونکہ:

1۔ ہم مجتہد نہیں ہیں۔

2۔ کسی بھی مجتہد کی تقلید صحیح ہے۔

3۔ مجتہدین ایک دوسرے کی تصدیق کررہے ہیں۔

4۔ کسی مرجع کو برا بھلا کہنا امام معصوم علیہ السلام کی مخالفت، ولی فقیہ کی نافرمانی اور تشیع کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اور پھر یہ کہ مرجعیت تشیع کا ستون ہے اور یہودیت و نصرانیت دونوں اس ستون کو ڈھا کر تشیع کو فنا پذیر کرنا چاہتی ہیں۔ اور اگر ہم تشیع کی حفاظت کرنا چاہیں، تو مرجعیت کا تحفظ کرنا پڑے گا۔

علماء

اس میں شک نہیں ہے کہ دیگر اسلامی مذاہب کی مانند تشیع بھی اگر کبھی مذہبی حرکت اور دینی تحریک ـ چاہے سیاسی و اقتصادی اصلاحات کا انقلاب ہو، چاہے تعلیمی اور تربیتی انقلاب ہو ـ بہرصورت علماء کے ہاتھ میں ہوگی اور علماء اور روحانیت کی توہین کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آنے والی نسلیں علماء پر اعتماد نہیں کرسکیں گے۔

لہذا ہر وہ عمل جس سے عمومی طور پر علماء، اہل علم، لباس روحانیت، اور علم دین و حوزات علمیہ پر لعن و طعن کرنا ـ خواہ وہ بدنیتی پر مبنی ہو خواہ نیت اصلاح و ہدایت ہو ـ علماء اور علم دین پر عوام کی بے اعتمادی پر منتج ہوتا ہوتا ہے اور علماء سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو دین کی طرف رجحان بھی ختم ہوگا بجائے اس کے، کہ کل یہی عوام، علماء کی قیادت میں بہتری کی جانب کوئی قدم اٹھائیں۔

اور جان لینا چاہئے کہ وہ حضرات جو دین کے تحفظ کو اپنا مطمع نظر بنائے ہوئے ہیں لیکن علمائے دین کے خلاف زہر افشانی کو بھی اپنا "دینی فریضہ” سمجھتے ہیں، کہ اگر عوام علماء سے بدظن ہوجائیں تو وہ دین کے معاملے میں عوام ان سے رجوع نہیں کریں گے بلکہ دین ہی کو ترک کریں گے اور ان کا فسلفۂ حیات ہی نیست و نابود ہوجائے گا۔

مختصر یہ کہ:

علم، عمل، اخلاص، ادب، عقل، موعظۂ حسنہ، دفاع معقول، مخالفت معقول، حق و حقیقت اور باطل کا مکمل تعارف، اہل حق اور اہل باطل کی شناخت کا باعث ہے، جبکہ دفاع نامعقول، نادانی، خودپرستی، گالی گلوچ، الزام تراشی، حق و باطل کے لئے ذاتی معیارات کا تعین، ولایت کے نام پر ولایت دشمنی پر مبنی اقدامات کا ارتکاب، دی، مذہب، ولایت اور حق و حقیقت سے لوگوں کو گریزان کردیتا ہے، مرجعیت اور علماء کی تقویت تشیع کی تقویت اور ان کی تضعیف تشیع کی تضعیف ہے۔

ایک نکتہ (جملۂ معترضہ): بعض حضرات اپنے محبوب علماء کا دفاع کرتے ہوئے لوگوں پر کسی بھی قسم کا الزام لگانا جائز سمجھتے ہیں، انہیں گالیوں اور لعنت کا نشانہ بناتے ہیں اور وہ اپنے محبوب عالم دین کے اوصاف بیان کرنے اور منطقی انداز میں ان کو مقبول کرانے کی بجائے بدزبانی سے استفادہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ان کے محبوب لیڈر کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ وہ اگر کبھی غیرجانبدار بھی ہوں، ان کے ہردلعزیز لیڈر کے دشمن بن جاتے ہیں اور یہ منفی انداز میں دفاع و تحفظ کا منطقی نتیجہ ہے۔

ہوائے نفس اور خودپرستی، نادانستہ طور پر شیطان کی متابعت ہے۔

کوئی سرزمین بلحاظ عوام، بری یا اچھی نہیں ہوتی اور پوری زمین خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام علیہ السلام کے لئے ہے۔

مرجعیت اور ولایت کا یکجا ہونا اللہ کی نعمت عظمی ہے مگر ولایت کی نظر میں تمام مراجع کی تقلید جائز اور ان کی توہین ناجائز ہے۔ کیونکہ تشیع کی عظمت مرجعیت سے وابستہ ہے (جو دیگر دو عناصر یعنی مہدویت اور عاشورا بھی زندہ رکھتی ہے)۔

نعروں سے اسلام اور ایمان کا اجراء اور نفاذ نہیں ہوتا، حق و باطل کے نئے معیار بنانا، خوارج کی سنت کا احیاء ہے جس طرح ہم آج انسانیت کا سر عام سرقلم کرنے والے جدید خوارج کو دنیا کے مختلف ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔

خدایا! شاہد رہ کہ میں نے جو کجھ لکھا (بیماری کی حالت میں لکھا، صرف تیرے لئے لکھا، تیری رضا کی خاطر لکھا، تیرے دین کے تحفظ و دفاع کے لئے لکھا،

خدایا میں نفس کی برائیوں، شہوات اور نفسانی خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ہمیں بیدار ہونے اور بیدار کرنے کی توفیق دے۔

خدایا! ہمیں توفیق دے کہ کیاست اور زیرکی کے ساتھ دشمنون کی سازشوں کو سمجھیں اور مؤمنین کے درمیان اختلافات کی تقویت اور وقت اور سرمایہ ضا‏ئع کرنے کی بجا‏ئے وقت کے یزید، و شمر و عمر سعد اور ان کے مرشدین اور (امریکہ و صہیونیت) کا تعارف کرائیں۔

خدایا! ہمیں توفیق دے کہ تولا اور تبرا کے صحیح معنی و مفہوم کو سمجھیں اور سمجھائیں، اور لوگوں کو بتائیں کہ اس دور کے طاغوت کون ہیں اور عالم اسلام کو کن حالات کا سامنا ہے؟

خداوندا! ہم سب کو توفیق دے کہ لوگوں کو بتائیں کہ دہشت گردوں کو ان قوتوں کی حمایت حاصل ہے جو اسرائیلی اور صہیونی مفادات کے لئے کام کررہے ہیں

راہ گشا نصائح

ادب و اخلاق ایمان کے لئے بنیادی شرائط ہیں۔ آپ اگر اسلامی آداب و اخلاق کے ہتھیار سے لیس نہ ہوں تو معاشرہ میں جینا ہی بے معنی ہوگا؛ چہ جائیکہ آپ کسی سے بحث و جدل کریں۔ اگر آپ ادب سے بے بہرہ ہیں تو لوگ پہلی ملاقات میں ہی آپ سے دوری اختیار کریں گے۔

علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی حکمت 113 میں) فرماتے ہیں: کوئی سرمایہ عقل سے زیادہ منافع بخش نہیں ہے، کوئی تنہائی خودبینی سے زیادہ خوفناک نہیں ہے۔ کوئی عقل دوراندیشی سے مفید۔ کوئی سخاوت و کرم تقوی سے زیادہ افضل، کوئی ہم نشین حسن اخلاق سے برتر اور کوئی میراث ادب کی مانند نہیں ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام آگے جاکر فرماتے ہیں کہ: کوئی زہد و پرہیز اشتباہ کی صورت میں ہاتھ و زبان کی حرکت روک دینے سے افضل نہیں ہے؛ تفکر جیسا کوئی علم نہیں ہے، حیاء اور صبر سے بہتر کوئی ایمان نہیں ہے، تواضع اور منکسرالمزاجی سے بہتر کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے۔ کوئی شرف علم کی مانند نہیں ہے، کوئی عزت اور رتبہ حلم و بردباری جتنا عظیم نہیں ہے اور آخر کار یہ کہ "کوئی بھی حمایت و پشت پناہی مشاورت سے بہتر نہیں ہے”۔

پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ انسان کی ذات و صفات بھی بحث و جدل اور ہدایت و و راہنمائی کے لئے ضروری ہے اور ادب اور اخلاق ان ہی صفات میں سے ہے۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ (کی حکمت 5 کے ضمن) میں فرماتے ہیں: "علم و دانش نہایت قیمتی ورثہ ہے، ادب سدا بہار زیور ہے اور فکر نہایت صاف و شفاف آئینے کی مانند ہے”۔ (حکمت 2 میں) فرماتے ہیں: "کمزوری آفت ہے، صبر و استقامت شجاعت ہے، زہد دولت ہے”۔

اپنے اعمال سے راضی و خوشنود ہونا "عُجْب” کہلاتا ہے اور "عُجْب” خود پسندی کو بھی کہا جاتا ہے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام (حکمت 6 میں) فرماتے ہیں: "جو شخص اپنے آپ سے راضی ہو (خودپسندی،”عُجْب” اور تکبر کا شکار ہو)، اس کے دشمنوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔

بہرحال یہ سارے اوصاف نہایت اہم اور ضروری ہیں اور انسان کو معمول کی زندگی کے لئے بھی ان کی اہمیت ناقابل انکار ہے اور ادب، حلم و بردباری، عدم عُجْب، عدم خودپسندی معاشرے میں بہتر زندگی کے لئے ضروری ہے، اور کسی کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے، تدریس و تربیت کرنے اور ہدایت و راہنمائی کرنے کے لئے ان تمام اوصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے (خط نمبر 31 میں) امام حسن مجتبی علیہ السلام کے نام مرقوم فرمایا: لوگوں کو نیکی اور معروف کا حکم دو (امر بالمعروف کرو)، اور خود اہل معروف میں سے ہوجاؤ اور اس پر عمل کرکے دکھاؤ (جس کی دوسروں کو تلقین کرتے ہو)؛ یعنی پہلے خود عامل بنو اور پھر دوسروں کو عمل کرنے کی تلقین کرو۔

اور (حکمت نمبر 38 میں) فرماتے ہیں: بیٹا حسن! چار چیزیں مجھ سے سیکھو اور چار چیزیں یاد رکھو:

الف:

1۔ سب سے بڑی بے نیازی اور غِنی، عقل ہے۔

2۔ سب سے بڑی محتاجی اور فقر بےعقلی اور حماقت ہے۔

3۔ سب سے خوفناک تنہائی خودپسندی ہے۔

4۔ بہترین خاندانی قدر خوش اخلاقی ہے۔

ب:

1۔ احمق سے دوستی مت کرو کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہتا ہے مگر نقصان پہنچا دیتا ہے۔

2۔ بخیل و کنجوس شخص کی دوستی سے پرہیز کرو، کیونکہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہوگی وہ دینے سے گریز کرے گا۔

3۔ بدکار شخص کے ساتھ دوستی سے پرہیز کرو جو تمہیں تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالتا ہے۔

4۔ جھوٹے شخص سے دوستی مت کرو جس کی مثال سراب کی مثال ہے وہ دور کی چیزیں قریب دکھائے گا اور قریب کی چیزیں دور۔

انسان کو ہر بات کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرنا چاہئے کہ اس کے دل اور اس کی عقل کہاں ہونی چاہئے اور زبان کو کس مرحلے پر استعمال کرنا چاہئے۔ امام علی علیہ السلام نے (حکمت 40 میں) فرماتے ہیں: عقلمند شخص کی زبان عقل کے پیچھے ہے (اور عاقل شخص پہلے عقل کے ذریعے تول کر پھر بولتا ہے)، اور احمق و نادان شخص کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے (اور بولنے کے بعد سوچتا ہے اور کہی ہوئی بات کا وزن معلوم کرتا ہے یا پھر کبھی اپنی کہی ہوئی بات کے بارے میں سوچتا ہی نہیں ہے)۔ ایک مقام پر علی علیہ السلام نے فرمایا ہے: احمق شخص کا قلب (اور اس کی عقل) اس کے منہ میں ہے اور عاقل کی زبان اس کے قلب (اور عقل) میں ہے۔ (حکمت 41)

بہرحال اگر ان سارے قیود و شروط کے مطابق کسی کا دفاع کریں گے کامیابی حاصل کرنا ہرگز ناممکن نہ ہوگا اور بند گلی کا سامنا کبھی نہ کرنا پڑے گا۔ موعظہ اور نصیحت کے لئے حس بیان اور حسن اخلاق اور حس ادب نہایت ضروری ہے۔ (سورہ نمل کی آیت 25 میں) خدائے متعال کا ارشاد گرامی ہے:

"ادْعُ إِلِى سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ” (سورہ نحل آیت 125)

ترجمہ: اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دعوت دیجئے حکمت اور اچھے عنوان سے وعظ و نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کیجئے بہتر سے بہتر ذریعے سے۔

(اے رسول (ص)): لوگوں کو دلیل و حکمت اور نیک نصیحت کے ذریعے خدا کی راہ پر چلنے کی دعوت دو۔

یہ نصیحت، یہ وعظ یا یہ تبلیغ کسی خاص موضوع تک محدود نہیں ہے۔ یہ وہ قواعد ہیں حو معاشرے میں رہنے والے لوگوں سے رابطہ کرنے، پڑھانے، تقریر و خطابت کرنے، بحث کرنے، لکھنے، غرض ہر موضوع کے لئے لازم العمل ہیں۔

About صراط عشق

Check Also

رہبر انقلاب اسلامی : ایرانی قوم انتخابات میں دشمنوں اور بدخواہوں کو مایوس کر دے

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے جمعہ پہلی مارچ کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے